وفاقی حکومت کی جانب سے چیف سیکرٹری اور آئی جی پی پنجاب کو دی گئی ہدایت کے مطابق پولیس افسران کے خلاف تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں، یہ کارروائی افغان سفارت خانے کی شکایت کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک بچے کی موت واقع ہوئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان سفارت خانے نے یہ شکایت رواں ماہ کے شروع میں اسلام آباد میں افغان سفارت خانے اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران درج کی گئی تھی۔

ملاقات کے دوران افغان حکام نے دعویٰ کیا کہ یٰسین اور محمد الا نامی دو افغان شہری جو افغان مہاجرین کے کارڈ کے لیے پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کے حامل ہیں، کو سول لائنز تھانے راولپنڈی کے ایک اہلکار نے ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں اور رقم کا مطالبہ کیا۔

افغان حکام نے مزید کہا کہ لالہ موسیٰ کا رہائشی عبدالرحمٰن نامی افغان بچے پر متعدد افراد نے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے بعد وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، بچے کے پاس (پی آر او) رجسٹریشن کارڈ بھی موجود تھا، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ گجرات میں شادی کی تقریب کے دوران زمین پر پھینکی رقوم جمع کر رہا تھا۔

افغان حکام نے نشاندہی کی کہ پولیس نے سیکشن 302 (اقدام قتل) کے بجائے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 (قتال بس صباب) کے تحت ’غلط‘ ایف آئی آر درج کی ہے اور پولیس کے اس ’غیر منصفانہ‘ فیصلے کے تحت ملزمان کو سزا نہیں دی گئی۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی وطن واپسی کے حوالے سے وزارت داخلہ اور خارجہ کے قومی سلامتی سیل اسلام آباد نے فاٹا ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ کے بعد چیف سیکرٹری اور آئی جی پی پنجاب ڈاکٹر عثمان آور کو ’سفارت خانے کے حکام سے ملاقات‘ کے عنوان سے ایک خط بھیجا تھا۔

وزارت داخلہ نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور آئی جی پی پنجاب کو یہ بھی بتایا کہ وحدت ٹاؤن تھانہ لاہور کے ایس ایچ او عبدالرؤف افضل نے زم زم ٹاور، مسلم ٹاؤن لاہور میں ایک افغان تاجر کو ہراساں کیا اور یہ تیسری مرتبہ ہے کہ ایس ایچ او افغان شہریوں کو پولیس اسٹیشن لے جا کر ہراساں کررہے ہیں۔

اس سے قبل 30 نومبر کو ایس ایچ او افضل کچھ افغانوں کو تھانے لے گئے جہاں افغان باشندوں نے پولیس کو بالواسطہ 15 ہزار روپے دے کر خود کو بچایا۔

وزارت داخلہ کے حکام نے گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ایسے تمام اقدامات کی مذمت کی۔

آئی جی پی نے ریجنل پولیس آفیسر راولپنڈی سید خرم علی، آر پی او گوجرانوالہ اور کیپٹل سٹی پولیس آفیسر لاہور بلال صدیق کامیانہ کو حکم دیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کی جائیں اور یکم جنوری تک تفصیلی رپورٹ آئی جی آفس بھجوائی جائے۔

لاہور میں پولیس افسران اور اہلکاروں اور راولپنڈی میں قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو ہراساں کرنے والے اہلکار کے خلاف انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں