السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

پاکستان کی سماجی اور سیاسی زندگی کے مزاج کے حوالے سے اگر کوئی ایک لفظ ذہن میں فوراً آتا ہے تو وہ ہے"تسلسل"، حالانکہ اتنے سالوں میں بہت ساری تبدیلیاں بھی آئی ہیں-

گزشتہ دہائی سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران اتنی بڑی تبدیلی قومی زندگی کے دھارے میں الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے آئی ہے جس کا اندازہ لگانے کیلئے اینکر حضرات اورسنجیدہ دانشوروں کو بھی کافی تحقیقا تی عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے-

اور جب بھی اس ضمن میں بامعنی تحقیقات کی جائیگی تو یہ آشکار ہوگا کہ ایک نئی اشرافیہ نے پاکستان میں جنم لیا ہے جس کا اثر روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے-

میڈیا مالکان اور ان کے ساتھ پیشہ ور صحافیوں نے تو ہمیشہ سے پاکستان کے اہم سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں بہت اہم کھلاڑی کا کردارادا کیا ہے- ایوب خان کی 1958 کی فوجی بغاوت تک ملک کے سب سے بااثر اخبارات جس میں پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار شامل تھے ملک کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (پی پی ایل) کے زیر انتظام چلا رہے تھے-

جب پی پی ایل کو ایوب کے حواریوں نے اپنی تحویل میں لےلیا تو ریاستی اجارہ داری قائم ہو گئی اور تقریبا تمام میڈیا چینلز ریاستی پروپگینڈا مشینری کے کل پرزے بن گئے-

اور پھر وہ بھی ایک ملٹری ڈکٹیٹر ہی کا دور تھا جس کے زمانے میں ٹی وی میڈیا کا انقلاب رونما ہوا جو گزشتہ صدی کے اختتام کے ساتھ ظہور پزیر ہوا- جنرل مشرف نے بار بار اس دعوے کا اعادہ کیا کہ صرف اور صرف انہی کو میڈیا کو آزادی دینے کا اعزاز حاصل ہے- لیکن حقیقتاً دولت یعنی سرمایہ اور اسکی حرکیات ٹیلی ویژن کی چوبیس گھنٹے کی نشریات کو ہماری زندگیوں میں داخل کرنے کا اہم سبب تھیں-

بہت سارے مبصرین کیبل ٹی وی کی مسلسل توصیف کرتے رہتے ہیں کیونکہ انکے خیال میں یہ ایک حتمی احتسابی نظام کا سب سے زیادہ اہم حصہ ہے جوپاکستان کے موجودہ جمہوری عمل کیلئے ناگزیر ہے-

دوسری طرف لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس معاملے میں ٹی وی اینکرز اور پروڈیوسرز کے بارے میں شکوک و شبھات میں مبتلا ہے جسطرح سے وہ اکثروبیشتر ریاستی نظریہ کو بالکل غلط سمت میں ایک نیا رخ دینے کی کوشش میں ناظرین کی آراء پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں-

میڈیا کی عوامی مباحث پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کوئی نئی بات نہیں ہے- جو چیز بے حد حیران کن ہے وہ ٹی وی والوں کی نہایت مختصر عرصے میں عوام کی رائے بدل دینے کی طاقت-

ہاں یہ دلیل البتہ دی جاسکتی ہے، جیسا کہ اکبر زیدی نے انہی صفحات پر (9 اپریل 2012) اشارہ کیا ہے کہ کئی اینکروں نے توایک ایسے دورمیں اپنے اوپر عوامی دانشوری کا فریضہ تفویض کر لیا ہے جس میں"عوامی" کا مفھوم بھی اتنا ہی فرضی ہے جتنا کہ حقیقی-

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ مستند تحقیقاتی رپورٹنگ ٹیلی ویژن پر بالکل مفقود ہے، چاہے واقعہ انسانی دلچسپی پر مبنی کہانیوں کا ہو، سماجی اور سیاسی کٹر پسندی سے متعلق سوالات کم اٹھائے جاتے ہیں جبکہ معلوماتی ذرایع کے بارے میں جواب اپنی مرضی کا ہوتا ہے-

ٹیلی ویژن کے ایک عام ناظر کیلئے جو ناقدانہ نقطہء نظر نہیں رکھتا ہے اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ ان میں مسائل کا ذکر نہیں ہوتا ہے بلکہ توجہ اس بات پر ہوتی ہے کس کہانی کار کا انداز دوسروں کے مقابلے میں زیادہ پر اثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ تقریبا ایک درجن اینکرز دیکھتے ہی دیکھتے گھر گھر مقبول ہوگئے ہیں اوراس میں انکی اپنی صحافیانہ صلاحیتوں کا کوئی کمال نہیں-

یہ کوئی درجن بھر اینکرز --بلکہ ان کی تعداد اور بڑھےگی-- انتہائی اہم شخصیت کے حامل ہوگئے ہیں، انکو لائین میں کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی سیکورٹی چیکنگ ان کیلئے لازمی ہے نہ انکی پیشہ ورانہ کوتاہیوں سے انکے سماجی رتبہ میں کوئی کمی آتی ہے (جیسا کہ ملک ریاض کے انکشافا تی پروگرام کے دوران اور بعد میں ثابت ہوگیا)

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ میڈیا کا نیا اشرافیہ اتنا آگے تقریباً اسی وقت آیا ہے جبکہ پاکستانی سیاست کے تناظر میں سپریم کورٹ بھی ایک نسبتا خودمختارطاقت کے منبع کے طورپرابھرا ہے- میڈیا اورعدلیہ دونوں مشرف کے خلاف تحریک کے ہیروؤں کا درجہ رکھتے تھے لہذا دونوں ہی عوامی مفاد کی رکھوالی کے بے لاگ دعویدار کے طورپراپنی حیثیت منواچکے تھے-

دونوں ہی شہر کی پھیلتی ہوئی مڈل کلاس آبادی میں، جن کیلئے عام سیاست بے معنی ہے، انتہائی مقبول ہیں- شائد میڈیا اور عدلیہ ریاستی نظریہ کے علمبردار کا کردار ایک ایسے وقت میں ادا کرنے کے اہل ہوسکتے ہیں جبکہ جمہوری عمل کو"عظیم قومی مفاد میں" روکنے کی کوشش کرنا ایک سیاسی مصلحت نہ ہو-

اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میڈیا (اور عدلیہ) کبھی بھی انتظامیہ کے تابع ہونے کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں- جیسا کہ میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے کہ کئی قابل ذکر میڈیا چینلز ریاست کے قیام کے بعد کی پہلی دہائی سے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریات کا گڑھ رہے ہیں- لیکن میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پی پی ایل جیسا ادارہ ایک بار پھر نمودار ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جبکہ روپیہ پیسہ میڈیا کی صنعت میں اہم رول ادا کر رہا ہے-

بہت سے ترقی پسندوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا میں انقلابی رول ادا کرنے کے بڑے امکانات موجود ہیں- میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے گروہ تشکیل دئے جاسکتے ہیں اور انھیں قائم رکھا جا سکتا ہے گو کہ ہم انھیں دیکھ نہیں سکتے-

لیکن اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ گروہ لازمی طور پر ترقی پسند نظریات کا مضبوط گڑھ بن جائینگے یا یہ کہ وہ موجودہ صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے برعکس کوئی بامعنی سیاسی متبادل پیش کر سکتے ہیں-

اہم بات یہ ہے کہ ٹی وی کی میڈیا اشرافیہ کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی "اشرافیہ" کے وجود میں آنے کے امکانات خاصے کم ہیں- وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کا رابطہ ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی سطح پر ہوتا ہے جبکہ طاقتور اینکر کے ساتھ ٹی وی کے ناظرین کا رابطہ اس سے مختلف ہوتا ہے- چنانچہ ایک ایسی دنیا میں جہاں "ڈیجیٹل تقسیم" واضح طور پر نظر آتی ہے وہاں سوشل میڈیا مساوات قائم کرنے میں بمشکل ہی کامیاب ہوسکتا ہے-

مختصراً یہ کہ ہمیں آج ایک ایسی اشرافیہ ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے جسکی پہلے کوئی مثا ل نہیں ملتی- آج لوگ معاشرے میں معلومات پھیلانے کے وسائل کو کنٹرول کرتے ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنے اختیارات کو استعمال کیا ہے- دریں اثناء گزشتہ دہائی میں جو ٹیکنولوجیکل تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں نیزسرمایہ کی کبھی نہ بجھنے والی ہوس کہ وہ اپنے حجم میں اضافہ کرتا چلا جائے اور اس کے ساتھ پاکستان کے طاقت کے ڈھانچے میں پائے جانے والے مخصوص تضادات نے ایک بالکل نئی صورت حال کو جنم دیا ہے-

اپنے ان جھوٹے دعووں کے باوجود کہ وہ اعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہے اور عوام کے مفادات کے نگہبان (خودساختہ) کا رول انتہائی مہارت کے ساتھ انجام دے رہا ہے، نئے میڈ یا کی اشرافیہ اپنی اس مراعات یافتہ پوزیشن سے بخوبی واقف ہے جو دور جدید کے پاکستان میں اسے حاصل ہو چکی ہے- وہ اپنی اس پوزیشن کو ڈھٹائی سے استعمال کرتا ہے اور ایک ایسے پاکباز رویہ کا ڈھونگ کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے گویا کہ وہ ان بے شمار مسائل کیلئے ذمہ دار نہیں ہے جو آج ہمیں درپیش ہیں-

حقیقت تو یہ ہے کہ اشرافیہ کے دیگر طبقات کی طرح میڈیا کی اشرافیہ بھی ان مسائل کی ذمہ دار ہے نہ کہ ان کے حل کی- وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ اپنی قوت میں اضافہ کرے نہ صرف مادی لحاظ سے بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اسے عوامی مفاد کے تعین کرنے کا حق حاصل ہوجائے-

وہ ان بنیادی سوالات کو برداشت نہیں کرتا جن کا تعلق پاکستانی ریاست کی نظریاتی ہئیت سے ہے، وہ نہ تو پاکستانی سماج میں استبداد کی مختلف شکلوں کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے اور نہ ہی عالمی سرمایہ داری کے محرکات پر نظر ڈالتا ہے- اور جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے اس اشرافیہ کا زوال بھی اتنی ہی تیزی سے واقع ہوگا جیسا کہ اس کا عروج-


مضمون نگار قائدِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔

 ترجمہ: سیدہ صالحہ

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں