اسلام آباد: وزیراعظم کو قومی اسمبلی میں ان کی ’غلط بیانی‘ پر نااہل قرار دینے کے لیے دائر کی گئی ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ تسلیم کیا کہ ’صادق ‘ (سچے) اور ’امین‘ (نیک) کی تعریف کے حوالے سے آئین خاموش ہے۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ کے اراکین بننے کے خواہشمند افراد کو ان صفات کا مالک ہونا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف ایڈوکیٹ گوہر نواز سندھو کی دائر کردہ اپیل کی سماعت کرنے والے تین ججز پر مشتمل بینچ کے ایک رکن جسٹس دوست محمد خان نے کہا ’’آئین کے آرٹیکل 260 میں صادق اور امین کی کوئی تعریف نہیں دی گئی ہے، آئین کی کی سبز کتاب میں موجود یہ شق ان الفاظ کے معنی اور تشریح کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‘‘

اس موقع پر گوہر نواز سندھو نے کہا کہ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی سپریم کورٹ کو تشریح کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں اس بینچ نے گوہر نواز سندھو کی درخواست کو پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے غیرمتعلق قرار دے دیا، اس لیے کہ یہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک اپیل تھی، جس میں ان کی درخواست پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ یہ سیاسی نوعیت کی ہے۔

لہٰذا اسی بناء پر عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اس کی مداخلت کی ضرورت نہیں، چنانچہ ان دونوں سیاستدانوں نے براہِ راست سپریم کورٹ سے علیحدہ علیحدہ درخواستوں کے ساتھ رجوع کیا تھا۔

ان درخواست گزاروں نے قومی اسمبلی میں 29 اگست کو وزیراعظم کے مبینہ طور پر جھوٹا بیان دینے پر نااہل قرار دینے کی گزارش کی تھی۔

یاد رہے کہ وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف سے مصالحت کروانے یا پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے شاہراہِ دستور پر دھرنوں کے خاتمے کے لیے ضمانت کار بننے کے لیے درخواست نہیں کی تھی۔

سپریم کورٹ اسحاق خاکوانی اور چوہدری شجاعت کی درخواستوں کی سماعت منگل 21 اکتوبر جبکہ گوہر نواز سندھو کی اپیل کی سماعت 23 اکتوبر کو کرے گی۔

عدالت نے پہلے ہی اعتراف کرلیا تھا کہ گوہر نواز سندھو اپیل کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں، لیکن ان سے اپنےخیالات کو تحریری صورت میں اور دلائل واضح الفاظ میں پیش کرنے لیے کہا تھا۔

کل بروز جمعرات کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 2010ء میں اٹھارویں ترمیم کے بعد جب اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی کے سلسلے میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پہلی بار آیا تھا، تو اس وقت سے یہ عدالت کی ذمہ داری بن گئی تھی کہ وہ آرٹیکل 62، 63 اور 66 کی تشریح کرے۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 62 اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت، 63 نااہلی اور 66 ان کو دی جانے والی مراعات کے متعلق بات کرتا ہے۔

کورٹ نے فیصلہ کیا کہ اٹارنی جنرل سلمان بٹ کو ان آرٹیکلز کی تشریح میں مدد دینے کے لیے کہا جائے۔

2012ء میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور محمد اظہر صدیقی کے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈوکیٹ گوہر نواز سندھو نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ کے ایک رکن کو ایوان میں یا پارلیمنٹ کے باہر جھوٹا بیان دینے پر نااہل قرار دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایک رکن کی نااہلی کافیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے تھے، لیکن اس ترمیم کے بعد یہ اختیار عدالتوں کو منتقل ہوگیا ہے۔

گوہر نواز سندھو نے یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کا حوالہ دیا، جنہیں دو سال قبل توہینِ عدالت پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں