گذشتہ چند روز سے ملک بھر کی نظریں پاناما پیپرز کیس کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف کے عہدے سے برطرف ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے افواہوں، اندازوں اور قیاس آرائیوں کا بازار بھی خاصا گرم رہا ہے۔

تاہم جمعرات (27 جولائی) کے روز سپریم کورٹ کے دفتر نے اپنی ضمنی کاز لسٹ میں پاناما کیس کے فیصلے کی دن اور تاریخ کا اعلان کرکے ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ کردیا۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ جمعہ کی صبح ساڑھے 11 بجے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے گا۔

واضح رہے کہ لارجر بینچ کورٹ روم نمبر 1 میں فیصلہ سنائے گا جبکہ کیس کی زیادہ تر سماعتیں اس سے چھوٹے کورٹ روم نمبر 2 میں مکمل ہوئیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت مکمل

قانونی ماہرین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ لارجر بینچ کے اکثریتی ججز میں سے ایک بھی اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ سناتا ہے تو اس سے قبل سامنے آنے والا وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا اقلیتی فیصلہ اکثریتی ہوجائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر اس پیش رفت کو 'غیر معمولی اور نامناسب' قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ (جے آئی ٹی) کے دلائل کی سماعت میں تین ججز نے شرکت کی جبکہ فیصلے کا اعلان پانچوں ججز کی جانب سے کیا جائےگا۔

انہوں نے عدلیہ کی بحالی کے بعد برقرار رکھے جانے والے رول آف لاء کی خلاف ورزی کو افسوس ناک قرار دیا۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ججز کو یاد رکھنا چاہیئے کہ انہوں نے استقامت سے رہنے اور فیصلہ غیرمقبول بھی ہو تو اسے سنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون سے جب پانچ رکنی بینچ، جو پہلے ہی پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سنا چکا ہے، کے دوسری بار فیصلہ سنانے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی غیر موزوں بات نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے خیال ظاہر کیا کہ پانچ رکنی لارجر بینچ ناقابل فہم ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد اس بینچ کی تشکیل سمجھ میں آتی تھی لیکن اب یہ ناقابل فہم ہے'۔

طارق کھوکھر نے کہا کہ 'دو ججز کا مؤقف ریکارڈ پر موجود ہے، لہذا جھوٹی گواہی، جعلسازی، حقائق چھپانے اور جھوٹے دستاویزات جمع کرانے پر مزید کارروائی کی جاسکتی ہے، لارجر بینچ کو اقلیتی فیصلہ اکثریت میں بدلنے کے لیے صرف ایک جج درکار ہے'۔

ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ بابر ستار کا کہنا تھا کہ جمعے کے روز سنایا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ ہوگا کیونکہ دیگر دو ججز کے برعکس تین ججز نے جے آئی ٹی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد مختلف مواد دیکھا ہے اور مختلف دلائل کی سماعت کی ہے۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اور سینئر وکیل نے ڈان کو بتایا کہ یہ فیصلہ انتہائی غیرمعمولی ہے۔

سینئر وکیل کا کہنا تھا کہ 'عام طور پر عدالتی بینچز فیصلے سنانے کے بعد تحلیل ہوجاتی ہیں لیکن یہ ایک غیرمعمولی مقدمہ ہے۔

اپنے دلیل کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے مشہورامریکی قانون دان اور فلاسفر رونالڈ مائلز ڈوارکن کے جملے کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ 'مشکل مقدمات برے قوانین بناتے ہیں'۔

تاہم جمعے کے روز جاری ہونے والے فیصلے کو انہوں نے ایک بڑا فیصلہ قرار دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں