افغان امن عمل: امریکا، طالبان رواں ماہ معاہدے پر دستخط کرسکتے ہیں، رپورٹس

اپ ڈیٹ 13 فروری 2020
امریکی نمائندے اور طالبان رہنما کے درمیان مذاکرات قطر میں جاری ہیں—فائل/فوٹو:خامہ پرس
امریکی نمائندے اور طالبان رہنما کے درمیان مذاکرات قطر میں جاری ہیں—فائل/فوٹو:خامہ پرس

افغان حکومتی عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی جانب سے کارروائیوں میں واضح کمی کی صورت میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط رواں ماہ ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی فوج بتدریج دستبردار ہوگی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق افغان حکومت اور مغربی سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی کارروائیوں میں واضح کمی کی تو پھر فروری میں ہی معاہدے پر دستخط ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل افغان صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قطر میں امریکا اور طالبان کے میں جاری مذاکرات میں بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔

رپورٹس کے مطابق دونوں فریقین میں مذاکرات میں تعطل امریکا کی جانب سے طالبان کو اپنی کارروائیاں کم کرنے کے مطالبے پر تھا اور اب طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے کی صورت میں کارروائیوں میں فوری طور پر کمی لانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں:افغان امن عمل میں پیش رفت: ’طالبان کی پُرتشدد واقعات میں کمی کی پیشکش‘

قطر میں موجود طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ پیش رفت ہوئی ہے لیکن مزید تفصیلات بتانے سے انہوں نے انکار کردیا۔

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان قطر میں امن عمل کے حوالے سے مذاکرات گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے ہو رہے ہیں لیکن افغانستان میں دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

افغان عہدیدار نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ امریکا نے معاہدے پر اصولی طور پر اتفاق کرلیا ہے لیکن دستخط اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک طالبان کارروائیوں میں کمی کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر افغان عہدیدار نے کہا کہ معاہدے پر دستخط رواں ماہ ہوسکتے ہیں۔

کابل میں موجود مغربی سفارت کا کہنا تھا کہ امریکا کے مذاکرات کار طالبان کو کارروائیوں میں کمی لانے کے لیے تیار کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے اور گزشتہ 10 روز سے بڑی کارروائیوں میں کمی آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’10 روز کے دوران کشیدگی میں آنے والی کمی کے بعد دونوں فریقین مذاکرات کر سکتے ہیں اور بین الافغان مذاکرات کے لیے بھی تیار ہوں گے’۔

یہ بھی پڑھیں:زلمے خلیل زاد کی ملا برادر سمیت طالبان کی سینئر قیادت سے ملاقات

واضح رہے کہ افغانستان میں گزشتہ 18 برس سے جنگ جاری رہے اور اس وقت امریکا کے 13 ہزار اور نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں جو 11 ستمبر 2001 میں امریکا میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔

امریکی سفارت کا کہنا تھا کہ امریکا اپنے فوجیوں کی تعداد 9 ہزار تک کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

افغان وزارت دفاع کے عہدیدار کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی خبروں سے ملک میں حملوں میں کمی آئی ہے اور ملک کے 40 فیصد علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان تقریباً ایک سال سے جاری مذاکرات ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو 'مردہ' قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ ماہ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے 7 سے 10 روز کے مختصر سیز فائر کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ کیا جاسکے تاہم اس پیشکش کی تفصیلات کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکی نمائندہ خصوصی امن مذاکرات کے لیے کابل پہنچ گئے

امریکا اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغانستان کے خصوصی فورسز کی بمباری، جس میں کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے، پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند افغان حکام کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔

2018 کے بعد امریکی فضائی حملوں میں اضافے سے تنازع میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں امریکی ایئر فورس نے افغانستان میں 7 ہزار 423 بم گرائے جبکہ 2018 میں 7 ہزار 362 بم گرائے گئے تھے۔

2017 میں امریکا نے جنگ زدہ علاقے میں 4 ہزار 361 جبکہ 2017 میں ایک ہزار 337 بم گرائے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں