فرانس میں گستاخانہ خاکے، ہر قسم کی دہشت گردی قابل مذمت ہے، سعودی عرب

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
سعودی عرب میں فرانس کی سپرمارکیٹ کے خلاف سوشل میڈیا میں ٹرینڈ چل رہا ہے—فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب میں فرانس کی سپرمارکیٹ کے خلاف سوشل میڈیا میں ٹرینڈ چل رہا ہے—فوٹو: اے ایف پی

سعودی عرب نے فرانس میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی شدید مذمت کی لیکن ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے گونجنے والی دیگر ممالک سے آواز نہیں ملائی۔

خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ خلیجی ممالک ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، جو پیرس میں آزادی اظہار کی کلاس میں گستاخانہ خاکے دکھانے پر قتل کیے جانے والے استاد کے واقعے کی طرف واضح اشارہ ہے۔

مزید پڑھیں: فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور

سرکاری میڈیا میں جاری بیان میں کہا گیا کہ ‘آزادی اظہار اور ثقافت احترام کا مینارہ ہونا چاہیے، تحمل اور امن سے نفرت، جرم اور انتہا پسندی کے اقدامات اور رویوں کی نفی ہوتی ہے اور یہ اتحاد کے برخلاف ہے’۔

سعودی عرب کے اخبار ’عرب نیوز‘ نے مسلم ورلڈ لیگ کے سربراہ محمد العیسیٰ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حد سے زیادہ ردعمل دینا ایک منفی پہلو ہے اور صرف منافرت پسندوں کو فائدہ ہوگا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان سیاسی اختلافات کے باعث سعودی تاجروں اور شہریوں کو ترک مصنوعات کے بائیکاٹ کا کہا گیا تھا اور اس پر کسی حد تک عمل ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کے حکام کا کہنا تھا کہ ترک مصنوعات کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ فرانس میں ایک برس قبل طنز و مزاح کے ایک میگزین میں پغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے تھے جبکہ ان کے دفاتر پر 2015 میں حملہ ہوا تھا جس میں 12 افراد مارے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی گستاخانہ خاکوں کےخلاف قرارداد منظور

رواں ماہ فرانس کےدارالحکومت پیرس میں گستاخی کا مرتکب ہونے والا استاد قتل ہوا تھا جس کے بعد ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے دیواروں پر گستاخانہ خاکے آویزاں کیے گئے تھے جس پر مسلمانوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے مذمتی قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا تھا کہ پیرس سے اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔

سعودی عرب میں بھی فرانس کی سپر مارکیٹ ’کارفور‘ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا تھا جبکہ ریاض میں قائم اسٹور میں معمول کے مطابق کام چل رہا تھا۔

فرانس میں موجود کمپنی کے نمائندے نے کہا کہ تاحال کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں کارفور سپر مارکیٹ کا انتظام چلانے والے متحدہ عرب امارات کے شہری ماجد الفوطیم کا کہنا تھا کہ اسٹور خطے کی معیشت کے لیے سود مند ہے کیونکہ مقامی سپلائرز سے اشیا خریدی جاتی ہیں اور ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع مل جاتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘خطے بھر میں چند صارفین میں تشویش پائی جاتی ہے اور ہم حالات کی نگرانی کر رہے ہیں’۔

مزید پڑھیں: 'بائیکاٹ فرانسیسی مصنوعات': کون سے شعبے متاثر ہوں گے؟

کویت میں بھی متعدد سپر مارکیٹوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا ہے۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔

اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک بار پھر مذکورہ میگزین میں ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت ہونے لگی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل، پورے ہفتے احتجاج کا اعلان

رواں برس ستمبر کے آغاز میں چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں اکتوبر کے وسط میں فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اس واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

مذکورہ استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘۔

چنانچہ فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

مذکورہ صورتحال پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسلام پر اپنے بلا سوچے سمجھے حملے سے صدر ایمانوئیل میکرون یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات پر حملہ آور ہوئے ہیں اور انہیں ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔

علاوہ ازیں فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور پارلیمان کے دونوں ایوان میں فرانس کے صدر کے اسلاموفوبیا سے متعلق بیان پر مذمتی قرار دادیں بھی منظور کی گئیں۔

دوسری جانب ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں کویت سمیت متعدد عرب ممالک کی کاروباری تنظیموں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور یورپی ملک کی ہر طرح کی مصنوعات کو دکانوں سے ہٹایا جا رہا تھا جس پر فرانس کی حکومت نے عرب ممالک سے اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں