تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی 54 برس کی عمر میں لاہور کے مقامی ہسپتال میں انتقال کرگئے۔

ٹی ایل پی کے ترجمان حمزہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا اور گزشہ چند دنوں سے بخار تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مولانا خادم حسین رضوی کو گزشتہ چند روز سے بخار تھا، چند لوگوں نے ان کی موت کی وجہ کووِڈ 19 کو قرار دیا جبکہ دیگر نے کہا کہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی تاہم ان کے اہلِ خانہ اور ان کی پارٹی کی جانب سے باضابطہ طور پر موت کی وجہ نہیں بتائی گئی۔

جمعرات کی دوپہر ان کی طبیعت بگڑی تھی جس پر انہیں شیخ زید ہسپتال لے جایا گیا جہاں رپورٹس کے مطابق انہیں مردہ قرار دے دیا گیا تاہم ان کے اہلِ خانہ انہیں نزدیکی نجی ہسپتال لے کر گئے جہاں ان کی وفات کی تصدیق کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سے مذاکرات کامیاب: ٹی ایل پی فیض آباد دھرنا ختم کرنے پر آمادہ

تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ ڈاکٹر آصف جلالی نے خادم حسین رضوی کے انتقال کی تصدیق کی۔

تحریک لبیک یارسول اللہ کے سینیئر رہنما پیر اعجاز اشرفی نے اپنے بیان میں کہا کہ نماز جنازہ کے حوالے سے اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

اظہار تعزیت

علامہ خادم رضوی کی وفات پر صدر مملکت، وزیراعظم، آرمی چیف، وفاقی وزرا، وزیراعلیٰ پنجاب اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی جانب سے تعزیت کا اظہار کیا گیا۔'

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ 'علامہ خادم حیسن رضوی کی وفات پر ان کے اہلِ خانہ اور پیروکاروں سے میری تعزیت،اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے'۔

وزیراعظم عمران خان نے ان کی موت پر ایک پیغام میں کہا کہ 'مولانا خادم حسین رضوی کی رحلت پر میں ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں'

دوسری جانب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 'علامہ خادم حسین رضوی کی افسوسناک رحلت پر دلی تعزیت کا اظہار کیا' اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔

۔

وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ 'علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال پر ان کے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کے لیے دعا گو ہوں، اللہ تعالیٰ غمزدہ خاندان کو صبرِ جمیل عطا فرمائیں'۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز، وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی ٹی ایل پی کے سربراہ کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان ایک قابل احترام مذہبی اسکالر اور پیغمبر آخرالزمان ﷺ کے سچے عاشق سے محروم ہوگیا، اسلام کے لیے علامہ خادم حسین رضوی کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا'۔

خیال رہے کہ خادم حسین رضوی رواں ہفتے راولپنڈی کے علاقے فیض آباد میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی دھرنے میں بھی موجود تھے۔

وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کی سربراہی میں مذاکراتی ٹیم نے ٹی ایل پی کے سربراہ علامہ خادم رضوی سے مذاکرات کیے تھے جس میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ، کمشنر اسلام آباد عامر احمد اور مشیر داخلہ شہزاد اکبر اور سیکریٹری داخلہ بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے۔

مذاکرات سے قبل اسلام آباد انتظامیہ نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف ٹی ایل پی کے احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر فیض آباد میں پولیس، رینجرز اور فرنٹیئر کور کے 3 ہزار 113 سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کردیا تھا۔

راولپنڈی میں منعقدہ احتجاجی ریلی میں 5 ہزار افراد نے شرکت کی تھی اور ریلی کے شرکا نے روڈ بلاک کردیا جس کے باعث لوگوں کو دارالحکومت میں داخل ہونے میں دشواری کا سامنا رہا تھا۔

اس سے قبل 12 نومبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے اشتعال انگیز تقاریر اور احتجاجی مظاہروں میں سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ سے متعلق کیس میں خادم حسین رضوی سمیت 26 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تھی۔

خادم حسین رضوی کون تھے؟

خادم حسین رضوی 22 جون 1966 کو پنجاب کے ضلع اٹک میں نکہ توت میں اجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے جبکہ رپورٹس کے مطابق انہوں نے اپنی بتدائی زندگی کے بارے میں اپنے قریبی لوگوں کو بھی زیادہ نہیں بتایا۔

انہوں نے جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔

مزید پڑھیں: اشتعال انگیز تقاریر کیس: خادم حسین رضوی سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

علامہ خادم حسین رضوی حافظ قرآن اور شیخ الحدیث تھے اور لاہور میں داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کرتے تھے۔

انہوں نے تصدیق کی تھی کہ وہ 2006 میں گوجرانوالہ کے قریب ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد سے وہیل چیئر پر ہیں جبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے یہ حادثہ ان کی گاڑی کے ڈرائیور کی وجہ سے پیش آیا تھا جو گاڑی چلاتے ہوئے سو گئے تھے۔

علامہ خادم حسین رضوی کی گاڑی راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی تھی۔

وہ مشہور اسلامی اسکالر امام احمد رضا خان بریلوی کے پیروکار تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں