ایتھوپیا کی فوج کا عالمی ادارہ صحت کے سربراہ پر ٹیگرے کی حمایت کا الزام

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2020
تیدروس ٹیگرے لبریشن فرنٹ کی گزشتہ حکومت میں وزیر صحت تھے—فائل/فوٹو:اے ایف پی
تیدروس ٹیگرے لبریشن فرنٹ کی گزشتہ حکومت میں وزیر صحت تھے—فائل/فوٹو:اے ایف پی

ایتھوپیا کے آرمی چیف نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم پر ٹیگرے لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کے رہنماؤں کی حمایت اور ان کے لیے اسلحے کی خریداری کا الزام عائد کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق ٹیگرے میں نومبر کے اوائل میں شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایتھوپیا کے منحرف رہنما کا اریٹیریا کے ہوائی اڈے پر بمباری کا دعویٰ

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم کا تعلق ٹیگرے سے ہے اور وہ ایتھوپیا کی سابق حکومت میں وزیر صحت تھے، جو ٹی پی ایل ایف کی سربراہی میں قائم تھی۔

ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے ان الزامات پر تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا۔

ایتھوپیا کے آرمی چیف جنرل بیرہانو جولا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم نے ٹی پی ایل ایف کی حمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور انہیں اسلحے خریدنے میں معاونت کی ہے۔

انہوں نے الزامات کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔

جنرل بیرہانو کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ان سے توقع نہیں ہے کہ وہ ایتھوپیا کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور مخالفین کی مذمت کریں گے کیونکہ وہ ان کی حمایت میں سب کچھ کر رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک میں جنگ کی مذمت کے لیے مہم چلا رہے ہیں’۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم ان کے اسلحہ خریدنے کے لیے کام کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ 2017 میں عالمی ادارہ صحت کا سربراہ بننے کے بعد ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم کو دنیا میں شہرت ملی اور کورونا وائرس کے بعد ان کے کام کو سراہا گیا اور اب وہ دنیا بھر میں ٹیگرے کی سب سے نامور شخصیت بن گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایتھوپیا میں پرتشدد لڑائی: فوجیوں سمیت ہزاروں افراد کی سوڈان ہجرت

ادھر امریکا کے نومنتخب صدر کے خارجہ پالیسی کے مشیر انٹونی بلینکین نے دونوں فریقین سے لڑائی روکنے کی درخواست کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایتھوپیا میں انسانی بحران سے متعلق گہری تشویش ہے جہاں سے نسلی فسادات اور خطے کے امن و استحکام کو خطرات کی خبریں آرہی ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ لڑائی سےانسانی بحران جنم لینے کا خدشہ ہے۔

ایتھوپیا کے علاقے ٹیگرے میں جاری اس لڑائی میں اب تک 30 ہزار سے زائد افراد سوڈان کی طرف نقل مکانی کرچکے ہیں۔

سوڈان میں موجود اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے نمائندے ایکسل بسکوپ کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد مسلسل سرحد پار کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری بینکرز، اساتذہ اور طبی عملے سے بات ہوئی ہے اور ان سب کا کہنا ہے کہ وہاں حالات انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں اور وہ پیدل وہاں سے چلے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایتھوپیا کے آرمی چیف شمالی خطے میں لڑائی کے دوران عہدے سےبرطرف

واضح رہے کہ حکومت اور ٹیگرے کی مقامی انتظامیہ کے درمیان طویل عرصے سے چپقلش تھی اور گزشتہ ہفتے جھڑپیں شروع ہوئی تھیں۔

فضائی کارروائی میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے جبکہ خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ یہ لڑائی کہیں ملک میں خانہ جنگی کا باعث نہ بن جائے اور اس سے پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ایتھوپیا کی مرکزی حکومت کے فوجیوں اور ٹیگرے فورسز کے درمیان 8 مختلف مقامات پر لڑائی جاری ہے۔

وزیراعظم آبے محمد نے خطے میں کارروائی کے لیے فوج کو احکامات جاری کیے تھے جبکہ اس سے قبل ٹیگرے حکومت کی حامی فورسز نے میکیلے میں مرکزی فوج کے ایک بیس پر قبضہ کیا تھا۔

ایتھوپیا کی کابینہ نے بھی خطے میں 6 ماہ کے لیے ہنگامی حالات کا اعلان کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں