وکلا کے خلاف مبینہ بیان: یاسمین راشد کی طلبی کیلئے اشتہار دینے کا حکم

15 اکتوبر 2021
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشدنے پریس کانفرنس میں وکلا پر تنقید کی تھی—فائل/فوٹو:ڈان نیوز
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشدنے پریس کانفرنس میں وکلا پر تنقید کی تھی—فائل/فوٹو:ڈان نیوز

لاہور کی سول عدالت نے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی جانب سے مبینہ طور پر وکلا کے خلاف دیے گئے بیان پر طلبی کے لیے اخبار میں اشتہار دینے کا حکم جاری کردیا۔

سول عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ صوبائی وزیر صحت کی طلبی کے لیے نوٹس بذریعہ ڈاک اور کورئیر بھجوا دیا جائے۔

مزید پڑھیں: پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی: 46 وکلا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی 17 نومبر کی پیشی کے سمن بھی چسپاں کرنے کا حکم دیا، عدالت نے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف یہ حکم عدم پیشی پر جاری کیا۔

اس سے قبل عدالت نے یاسمین راشد کو ذاتی حیثیت میں یا وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ مدعی رانا نعمان نے یاسمین راشد کے خلاف ہتک آمیز بیان دینے کا الزام عائد کرنے مقدمہ دائر کیا تھا۔

انہوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد نے وکلا کے خلاف پریس کانفرنس میں ہتک آمیز بیان دیا۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزیر صحت کو 2 کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔

عدالت نے ہدایات کے باوجود پیش نہ ہونے پر طلبی کے لیے اخبار میں اشتہار دینے کا حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی: ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی، یاسمین راشد

یاد رہے دسمبر 2019 میں کچھ وکلا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں ایک وکیل کی والدہ کے ٹیسٹ کے لیے گئے تھے، جہاں مبینہ طور پر قطار میں کھڑے ہونے پر وکلا کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا۔

اسی دوران وکلا اور ہسپتال کے عملے کے دوران تلخ کلامی ہوئی اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا تھا اور مبینہ طور پر وہاں موجود وکلا پر تشدد کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد دونوں فریقین یعنی وکلا اور ڈاکٹرز کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور ایک دوسرے پر مقدمات درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، بعد ازاں ڈاکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

اس مقدمے کے اندراج کے بعد وکلا کی جانب سے کہا گیا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کریں، جس پر پہلے ان دفعات کو شامل کیا گیا بعد ازاں انہیں ختم کردیا گیا۔

جس کے بعد ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ واقعے پر معافی مانگ لی گئی اور معاملہ تھم گیا تھا لیکن ینگ ڈاکٹرز کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک ڈاکٹر کو اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے دیکھا گیا، جس میں مبینہ طور پر وکلا کا 'مذاق' اڑایا گیا تھا، جس پر وکلا نے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کے خلاف مہم شروع کردی۔

بعد ازاں وکلا نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کر کے ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے سے 3 مریض جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعے کا نوٹس لے لیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور: وکلا کا امراض قلب کے ہسپتال پر دھاوا، 3 مریض جاں بحق

اس دوران وزیر صحت پنجاب یاسمین راشد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، جنگ کے دوران بھی ہسپتالوں پر حملے نہیں کیے جاتے جبکہ وکلا نے حملہ کرنے سے پہلے سوچا نہیں وہ کیا کر رہے ہیں'۔

انہوں نے کہا تھا کہ ڈاکٹرز اور وکلا کے تنازع کو سنجیدہ نہ لینے کا تاثر غلط ہے، ڈاکٹرز اور وکلا کے درمیان صلح ہوگئی تھی اور ڈاکٹرز نے وضاحت کی تھی کہ سوشل میڈیا پر ویڈیو پرانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے گا، ویڈیوز کے ذریعے شناخت کرکے ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی اور وکلا کی طرف سے احتجاج کی صورت میں انتہائی اقدام اٹھایا جائے گا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں