گوادر میں 17 ویں روز بھی دھرنا جاری، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر مطالبات

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2021
مظاہرین نے مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا—فائل/فوٹو: اسمٰعیل ساسولی
مظاہرین نے مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا—فائل/فوٹو: اسمٰعیل ساسولی

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد ٹرالر مافیا، پینے کے صاف پانی سیمت دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے مسلسل 17 روز سے دھرنے دیے بیٹھے ہیں۔

جماعت اسلامی کے مقامی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں گوادر، تربت، پشکان، زرمان، بلیدا، اورماڑا اور پسنی سے بڑی تعداد میں شہری گوادر کو حقوق دو تحریک میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ’گوادر کو حق دو‘ ریلی میں خواتین، بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت

مظاہرین نے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی ظہور احمد بلیدی کا کہنا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے گوادر میں جیسے ہی دھرنے کا اعلان کیاتھا تو صوبائی حکومت نے تمام مطالبات پر عمل درآمد شروع کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات کے میرے 3 دور ہوئے ہیں، مولانا ہدایت الرحمٰن کےمطالبات جائز اور عوامی ہیں، جیسے ہی حکومت بنی خدمات کی انجام دہی میں جو کمی تھی اس کو پوری کرنے کی کوشش کی۔

ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ ہماری ابھی نئی حکومت بنی ہے، مکران ڈویژن کے تمام اراکین صوبائی اسمبلی نے نئی حکومت کے لیے کوشش کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن سے کہا کہ ٹرالرز کے مسئلے پر کارروائی کرکے 8 ٹرالرز پکڑے ہیں اور مولانا سے کہا اگر یقین نہیں تو کوئی نمائندہ بھیج کر دیکھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرالرز کے مسئلے کے حوالے سے حکومت سندھ حکومت سے بھی بات کریں گے، ٹوکن سسٹم بھی ختم کردیا گیا ہے اور مولانا ہدایت الرحمٰن کے مطالبے سے پہلے ہی چیک پوسٹوں کے حوالے سے ہم کام کر رہے ہیں، وہ خود یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ چیک پوسٹوں کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر میں احتجاج کے بعد شراب کی دکانیں فوری بند کرنے کا حکم

صوبائی وزیر نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے مطالبے کے مطابق شراب خانوں پر پابندی لگادی گئی ہے، حکومت بلوچستان مولانا ہدایت کے مطالبات کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے مذاکرات ناکام ہونے پر مجھ سمیت صوبائی وزرا گوادر گئے اور مولانا سے کہا برائے مہربانی مذاکرات کے دروازے بند نا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے خود اپنے تقاریر میں کہا تھا کہ چند مطالبات پر عمل درآمد ہورہا ہے اور ان سے کہوں گا کہ کچھ وقت دیں چند مطالبات پر قانون سازی کی ضرورت ہے، عوام کی خدمت ہمارا اور آپ کا مقصد ایک ہے۔

بعد ازاں ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن (ر) جمیل احمد بلوچ اپنے عہدے کا چارج سھنبالتے ہی انیس طارق گورگیج کے ہمراہ حق دو تحریک کے دھرنے میں پہنچ گئے اور مولانا ہدایت الرحمن سے ملاقات کی۔

جمیل احمد بلوچ نے کہا کہ ضلع گوادر میں بہتری کے لیے کام کریں گے، کوشش ہوگی کہ کسی شہری کو ضلعی انتظامیہ کی وجہ سے پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں: طلبہ کی بازیابی کی یقین دہانی پر بلوچستان یونیورسٹی میں جاری دھرنا مؤخر

انہوں نے کہا کہ ڈی سی آفس ہر شہری کے لیے کھلا ہے، ہر کسی کو سنا جائے گا، ڈپٹی کمشنر عوام کا نمائندہ ہے، شہریوں اور معززین کے تعاون سے کام کا آغاز کریں گے اور ضلعی انتظامیہ گوادر کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوشش کرے گی۔

ڈپٹی کمشنر گوادر نے کہا کہ دھرنے کے شرکا کے مطالبات پر صوبائی سطح پر کام جاری ہے، ان شااللہ ضلع گوادر کے عوام کو جلد اچھی خبر سننے کو ملے گی۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے ڈپٹی کمشنر گوادر کو چارج سھنبالنے پر مبارک باد دی اور کہا کہ خوشی ہوئی کہ ضلعے کا سربراہ سب سے پہلے 17 روز سے جاری دھرنے میں بیٹھے شرکا سے ملنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ امید رکھیں گے کہ ڈی سی آفس میں عام آدمی کو بھی رکن صوبائی اسمبلی کی طرح سنا جائے گا، ڈپٹی کمشنر آفس عوامی آفس میں تبدیل ہوگا تو عوام کے مسائل حل ہوں گے۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں عمارتوں سے زیادہ انسانوں کو اہمیت دینی ہوگی، پھر مسائل کے حل کی جانب جائیں گے، اچھے کاموں کی تعریف کریں گے جو کام عوامی مفاد کے خلاف ہوگا اس کی نشان دہی کریں گے۔

بلوچستان کے لوگوں کو دھوکا دیا گیا

ڈان نیوز کے پروگرام ‘ذرا ہٹ کے’ میں بات کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ جب 2002 میں گوادر بندرگاہ کا افتتاح کیا گیا اور پھر پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک( شروع ہوا تو گوادر کے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ منصوبوں کو پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ صوبےمیں توسیع دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ‘گوادر میں عوام کےپاس پانی، بجلی، تعلیم، طبی سہولیات یا روزگار نہیں ہے اور نہ ہی اس کا احترام کیا جارہا ہے، سی پیک کا ایک ذرہ بھی بلوچستان پر خرچ نہیں کیا گیا’۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ مظاہرین حکومت بلوچستان سے روزگار فراہم کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس پہلے سے موجود ماہی گیری جیسے بنیادی چیزوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور بااثر لوگ ٹرالر مافیا کو سہولت دے رہے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں کان کنوں کے حقوق کی خلاف وزری پر تشویش ہے، ایچ آر سی پی

انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں زندگی گزارنے کے لیے کمانے کی اجازت دیں، ہمیں عزت دیں’۔

حکومتی بیان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت بار بار یقین دہانی کروا رہی ہے لیکن وہ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور بظاہر ہے کہ ٹرالر مافیا صوبائی حکومت سے مضبوط ہے اور وہ ہماری سمندری حیات کو ختم کر رہا ہے’۔

انہوں نے کہا کہ پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے، ٹیکنالوجی کے دور میں بلوچستان کے لوگ جو ساحلی پٹی میں رہتے ہیں وہ پانی دیکھتے ہیں لیکن پی نہیں سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘گوادر سے تھوڑے فاصلے پر علاقے میں ایک منصوبہ ہوتا تھا، یہ کہا گیا تھا کہ روزانہ 20 ہزار گیلنز فراہم کیے جائیں گے، لیکن 20 گلاس پانی صاف نہیں ملتا اور اس منصوبے پر ایک ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں’۔

مولانا ہدایت الرحمٰن نے نشان دہی کی کہ پاک-ایران سرحد کے قریب رہنے والے بلوچستان کے عوام کے رشتہ دار ہمسایہ ملک میں موجود ہیں اور ان کے نقل وحرکت پر پابندی عائد کی جارہی ہے جو ان کو تقسیم کرنے کاباعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایران کے ساتھ سرحد پر چیزیں سستی ملتی ہیں، پابندیوں اور سیکیورٹی چیک پوسٹس سے پہلے ہماری اپنی چیزوں کے مقابلے میں وہاں پر چیزیں 500 فیصد رعایت پر ملتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہمیں سرحد کھولنے سے فائدہ ہورہا ہے تو پھر یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اس کو قانونی بنادیا جائے، ایک آدمی کو فائدہ پہنچانے کے لیے جب آئین میں ایک دن میں ترمیم ہوسکتی ہے تو قانون ساز پورے عوام کے مفاد کے لیے کیوں نہیں بیٹھ سکتے ہیں’۔

مطالبات

ڈان کو سرکاری ذرائع نے بتایا تھا کہ صوبائی حکومت نے مظاہرین کے 4 مطالبات مان لیے ہیں متعلقہ حکام نے اس حوالے سے سرکاری نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ کی بازیابی کیلئے جاری دھرنا ملتوی

صوبائی حکومت کی جانب سے سب بنیادی جو مطالبہ منظور کیا گیاوہ پاک-ایران سرحد کے معاملات کی ذمہ داری فرنٹیئر کور سے لے کر ضلعی انتظامیہ کو دی گئی ہے۔

یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بحری امور کی ایجنسی، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ماہی گیری بلوچستان کے سمندر میں ٹرالرز کی جانب سے مچھلی کے غیرقانونی شکار کے خلاف اور غیرملکی ٹرالر مافیا کو ضلع گوادر کے پانیوں سے باہر نکالنات اور گوادر سمیت پورے صوبے کے ماہی گیروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مشترکہ پیٹرولنگ کریں گے۔

گزشتہ ہفتے ایکسائز، ٹیکسیشن اور اینٹی نارکوٹکس کے محکمے نے ضلع گوادر میں تمام شراب خانے بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے اور امن و امان کی صورت بگڑنے کے خدشے کے تحت اس پر فوری عمل درآمد کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں