عمران خان کا سپریم کورٹ سے 9 مئی کے ہنگامے، توڑ پھوڑ کی تحقیقات کا مطالبہ

عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی کو انتخابی میدان سے باہر کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہے—فوٹو: ڈان نیوز
عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی کو انتخابی میدان سے باہر کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہے—فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے سپریم کورٹ سے 9 مئی کے ہنگامے کی جوڈیشل انکوائری کی اپیل کی ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اس روز توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا ذمہ دار کون تھا۔

لاہور میں زمان پارک میں واقع اپنی رہائش گاہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے حکومت کو پیغام دیا کہ وہ آئندہ تین چار ہفتوں کے دوران جتنے پارٹی اراکین کو پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہے کرے لیکن اس کے بعد انتخابات کا اعلان کردے۔

انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو تین ہفتے لینا چاہتے ہیں تو لے لیں جتنے لوگوں کو پارٹی سے الگ کرنا چاہتے ہیں کرلیں، جس رفتار سے آپ جا رہے ہیں، آپ بہت لوگوں کو توڑ چکے، مزید بھی چھوڑ جائیں گے لیکن میری گزارش ہے کہ کوئی ٹائم فریم دیں کیونکہ ملک تباہی کی جانب جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’معیشت ڈوب رہی ہے، اس لیے دو سے تین ہفتے کا ٹائم فریم دیں، پھر جب آپ کو لگے کہ آپ نے پی ٹی آئی سے اتنے لوگوں کو توڑ لیا ہے کہ اب وہ الیکشن لڑنے کے قابل نہیں رہی تو الیکشن کا اعلان کریں‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت سے گزارش کی ہے کہ مجھے سیاست سے باہر کرنے کی کوشش میں ملک کو تباہ نہ کریں، میں اپنے اقتدار کے لیے نہیں ملک کی خاطر الیکشن کا مطالبہ کر رہا ہوں، جن لوگوں کا جینا مرنا پاکستان سے ہے ان کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی ایک روز قبل رات گئے پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے ہیں کہ پنجاب میں موجودہ نگراں حکومت خواتین کے ساتھ بدسلوکی کر رہی ہے۔

عمران خان نے زور دیا کہ سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا چاہیے اور ان خواتین سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنی چاہئیں جو اپنے بنیادی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے پرامن احتجاج کر رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ 25 غیر مسلح مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک اور سیکڑوں مظاہرین کو زخمی کرنے والوں کی شناخت کے لیے عدالتی انکوائری ضروری ہے، تقریباً 10 ہزار سیاسی قیدیوں کو بغیر تفتیش کے قید کرلیا گیا ہے حالانکہ صوبے کے چند ہی علاقوں سے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اینکر پرسن عمران ریاض کو پیش کرنے جیسے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ملک میں قانون ہے، کیا طاقتوروں کو سزا نہیں دی جائے گی اگر وہ قانون پر عمل نہیں کریں جب کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں؟

عمران خان نے کہا ہے کہ آج میں قوم اور پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کی جانب سے سپریم کورٹ کے 15 ججوں سے اپیل کرتا ہوں کہ پورا ملک آپ کی جانب دیکھ رہا ہے، تاریخ آپ کے کردار کو یاد رکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ایسا لگ رہا ہے کہ آپ آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو رہے ہیں اور طاقتور کے خلاف اپنی آزادی کھو رہے ہیں، ہمیں ایسا نہیں لگتا کہ آپ طاقتور کے خلاف اسٹینڈ لینے کے قابل ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت 25 مئی 2022 سے پی ٹی آئی کارکنوں اور خواتین کے خلاف زیادتیاں کر رہی ہے، ہمارے بنیادی حقوق ہر گزرتے دن کے ساتھ پامال کیے جا رہے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی کو انتخابی میدان سے باہر کرنے کا موقع ڈھونڈ رہی ہے، خواتین کو مرکزی سیاست سے دور رکھنے کے لیے ان کے خلاف دہشت پھیلائی جا رہی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا پی ڈی ایم حکومت خواتین کو غیر سیاسی بنانا چاہتی ہے اور ملک کی نصف آبادی کو مرکزی سیاست سے دور رکھنا چاہتی ہے، یہ سراسر جمہوریت کی نفی ہے۔

اعلیٰ سطح پر انکوائری کا مطالبہ

دوسری جانب پی ٹی آئی نے ملک بھر کی جیلوں میں نظر بند سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کا بھی مطالبہ کردیا۔

ایک بیان میں پی ٹی آئی کے انفارمیشن سیکریٹری رؤوف حسن نے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی رہنماؤں اور قیدیوں خصوصاً خواتین کو ہراساں کیے جانے اور ناروا سلوک اپنائے جانے کی تحقیقات کا آغاز کریں۔

رؤوف حسن نے الزام عائد کیا کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی آدھی رات کو پریس کانفرنس گھناؤنے جرائم کا اعتراف تھی جو حکومت سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین قیدیوں پر کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے بعد سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کے ساتھ سلوک کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

انہوں نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس بات کی اعلیٰ سطح کی انکوائری شروع کریں کہ ملک بھر کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں بالخصوص خواتین کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے۔

رہنما پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے بھی چیف جسٹس سے ایکشن لینے اور خواتین قیدیوں کو جیلوں سے رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ آج خواتین کے حقوق کے علمبردار کہاں ہیں اور کیا وہ آواز نہیں اٹھائیں گے؟ دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں خصوصاً خواتین اور میڈیا کو اس حوالے سے مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔

دوسری جانب پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے ان الزامات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خواتین قیدیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے حوالے سے ’پروپیگنڈا‘ کرنے میں مصروف ہیں، نام نہاد سیاسی جماعت عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے زہریلا پروپیگنڈا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 32 خواتین کو گرفتار کیا جن میں سے 21 کو پہلے ہی رہا کیا جا چکا ہے، اس وقت 11 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں ہیں اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں