پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات و انکوائریز پر ایک نظر

پی ٹی آئی رہنماؤں و وزرا کے خلاف مقدمات و انکوائریز

مرتب و تحریر: ایمن محمود

جولائی 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد برسراقتدار آنے والی تحریک انصاف کے منشور کا سب سے بنیادی نقطہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ تھا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا تھا پی ٹی آئی قومی احتساب بیورو (نیب) کو خود مختار بنائے گی اور کرپشن کے تمام مقدمات کا پیچھا کیا جائے گا۔

2 سالہ عرصے میں ملک سے کرپشن کا خاتمہ ایک الگ کہانی ہے تاہم رواں برس آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 19-2018 سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں مختلف وزارتوں میں عوامی فنڈز میں 12 ارب روپے سے زائد کے غبن اور ان کے غلط استعمال کا انکشاف کیا تھا جبکہ سرکاری فنڈز میں 258 ارب روپے کی بے ضابطگیاں بھی سامنے آئی تھیں۔

رپورٹ میں ذمہ داران کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیز کو سخت کارروائی کی تجویز دی گئی تھی۔

دو سالہ دور اقتدار کے دوران پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کے خلاف کرپشن، اختیارات سے تجاوز سمیت کئی مقدمات درج ہوئے جن میں سے کچھ زیر سماعت ہیں جبکہ کئی مقدمات سے متعلق کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے، 18 اگست 2018 سے لے کر تادم تحریر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کن کن مقدمات کا سامنا رہا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:


عثمان بزدار سے شراب کے لائسنس کے غیرقانونی اجرا کی تفتیش


وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وسیم اکرم پلس قرار دیے جانے والے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام سے متعلق نیب کی تحقیقات جاری ہیں۔

رواں ماہ اگست کے اوائل میں قومی احتساب بیورو کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے شراب کے لائسنس کے غیر قانونی اجرا کے الزام میں طلب کیا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار —فائل فوٹو: ٹوئٹر
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار —فائل فوٹو: ٹوئٹر

اس حوالے سے نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے عثمان بزدار کو 12 اگست کو پیش ہونے کی ہدایت کی تھی اور الزام لگایا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایک نجی ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس جاری کیا تھا۔

خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں جیسا کہ اعظم سواتی، عبدالعلیم خان اور بابر اعوان کے خلاف جب تحقیقات شروع ہوئیں یا گرفتاری عمل میں آئی تو وہ حکومتی عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے عہدے سے استعفیٰ دینے سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

عثمان بزدار پر جس لائسنس کے غیر قانونی اجرا کا الزام ہے اس کی تفصیلات سے متعلق بتایا گیا ہے کہ لاہور کے یونیکورن ہوٹل نے محکمہ سیاحت سے رجسٹریشن اور لائسنس کے بغیر ہی ایکسائز میں شراب کی فروخت کے لیے لائسنس کی درخواست جمع کرائی تھی، اس ہوٹل نے ایل ٹو شراب کے لائسنس کے لیے اپنی درخواست دی تھی جو صرف فور یا فائیو اسٹار ہوٹل کے لیے ہوتی ہے۔

نیب کے بلاوے پر وزیراعلیٰ پنجاب 12 اگست نیب کے ٹھوکر نیاز بیگ دفتر میں کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے اور ان سے قواعد کے خلاف ایک ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کرنے کے لیے ایکسائز اور ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کو مجبور کرنے کے لیے مبینہ طور پر 5 کروڑ روپے کی رشوت لینے سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

عثمان بزدار سے 100 منٹ تک سوالات کیے گئے اور اس دوران ان سے 60 سوال پوچھے گئے تھے لیکن انہوں نے بمشکل کسی ایک سوال کا جواب دیا تھا جس کے بعد وزیراعلیٰ کے تعاون نہ کرنے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی افسر نے سوالنامہ دینے سے متعلق ان کی درخواست پر عمل کیا تھا اور انہیں 12 صفحات پر مشتمل سوالنامہ دیا تھا جس میں ان کے رشتے داروں کی جائیدادوں کے ریکارڈ اور شراب کے لائسنس سے متعلق سوالات شامل تھے۔

ساتھ ہی نیب نے انہیں 18 اگست کو جواب جمع کروانے کا کہا تھا جس پر عثمان بزدار نے مزید وقت مانگا تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی تھی۔ جس کے اگلے روز نیب نے شراب کا لائسنس جاری کرنے کے معاملات پر ان کے سابق پرنسپل سیکریٹی راحیل احمد صدیقی سے 3 گھنٹے تک تفتیش کی تھی۔


حلیم عادل شیخ کے خلاف انکوائری


رواں برس جولائی میں نیب نے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا تھا اور اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر ملیر کو خط بھی لکھ دیا تھا۔

نیب نے خط کے ذریعے 253 ایکڑ سرکاری زمین کی غیر قانونی فروخت سے متعلق ریکارڈ طلب کرتے ہوئے حلیم عادل شیخ کے فارم ہاؤسز سمیت دیگر دستاویزات بھی طلب کر لی تھیں۔

پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ—فوٹو: فیس بک
پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ—فوٹو: فیس بک

جس کے اگلے ہی روز پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہا تھا کہ جب سے حکومت سندھ کو حلیمعادل شیخ نے ایکسپوز کرنا شروع کیا ہے، اس وقت سے حکومت سندھ ان کی دشمن بنی ہوئی ہے، فردوس شمیم نے کہا کہ میں پوری سندھ حکومت کے خلاف نیب میں ایک شکایت داخل کراونے جا رہا ہوں کہ انہوں نے سندھ کو برباد کیا، انہوں نے پیسے لوٹے اور اب دیکھنا ہے نیب سندھ کیا ایکشن لے گی۔

اپنے خلاف تحقیقات سے متعلق حلیم عادل شیخ نے کہا تھا کہ شکایت کی بنیاد پر نیب کا نوٹس نکلا اور ساتھ میں منی لانڈرنگ اور چائنا کٹنگ کے الزامات بتائے جا رہے ہیں حالانکہ نیب کے نوٹی فکیشن میں کہیں بھی منی لانڈرنگ کا ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جس زمین کا ذکر ہو رہا ہے، وہ 1991 میں 4 ایکڑ زمین میں نے اپنے نام سے لی، اس پر قرض لے کر پولٹری فارم لگا کر قرض واپس ادا کیا اور اس کی ایک ایک دستاویز موجود ہے۔

حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ مجھے نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ جنوری 2018 میں ہم نے اومنی گروپ کے خلاف ریلی نکالی تھی اور 20 جنوری کو اینٹی کرپشن میرے پیچھے لگ گیا اور اس کے بعد 19جنوری 2019 تک اینٹی کرپشن میرے پیچھے پڑا رہا، اینٹی کرپشن نے میرے خلاف بہت بڑا پلندہ بنایا۔


نورالحق قادری کے خلاف نیب انکوائری


مئی 2020 میں نیب نے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری کے خلاف شکایت کی تصدیق کا آغاز کیا تھا جس کے مکمل ہونے کے بعد ان کے خلاف باقاعدہ انکوائری شروع کی جائے گی۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ فیصلہ وزیر مذہبی امور کے خلاف انہی کی وزارت میں کسی کی شکایت پر نیب کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں کیا گیا تھا۔

وزیر مذہبی امور نورالحق قادری —فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر مذہبی امور نورالحق قادری —فائل فوٹو: ڈان نیوز

نیب نے مبینہ طور پر وفاقی دارالحکومت میں وزارت کی ایک عمارت کاروباری شراکت دار کو کرایے پر دینے کے معاملے پر کی گئی شکایت کی تصدیق کا عمل شروع کیا تھا۔

بعدازاں جولائی میں یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ نیب نے نورالحق قادری کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے حج کی اشتہاری مہم میں مبینہ بے ضابطگیوں کی چھان بین کا فیصلہ کیا تھا اور اس سلسلے میں گزشتہ 2 برس کی اشتہاری مہم کا ریکارڈ حاصل کیا جانا تھا۔


غلام سرور خان کے خلاف شکایت کی تصدیق کا آغاز


رواں سال مئی ہی میں قومی احتساب بیورو نے وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کے خلاف کی جانے والی ایک شکایت کی تصدیق کا آغاز کیا تھا جس میں ان پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ قومی احتساب بیورو نے وفاقی وزیر کے خلاف خود سے کارروائی کا آغاز نہیں کیا بلکہ ان پر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کی جارہی ہے، اس سلسلے میں نیب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سلیم احمد خان نے راولپنڈی انتظامیہ کو خط لکھا جس میں غلام سرور خان اور ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کی گئیں۔

وزیر ہوابازی غلام سرور خان —فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر ہوابازی غلام سرور خان —فائل فوٹو: ڈان نیوز

اس حوالے سے نیب نے راولپنڈی کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) سے غلام سرور خان اور ان کے خاندان کے ناموں پر خریدے گئے پلاٹس کے علاوہ ان کی زرعی، رہائشی اور کمرشل جائیداداوں کا ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔

بعدازاں جولائی میں نیب کو وفاقی وزیر ہوا بازی کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات بھی موصول ہوگئی تھی اور قومی احتساب بیوروز نے غلام سرور خان کے اثاثوں کی تفصیلات کا موازنہ الیکشن کمیشن میں جمع تفصیلات سے شروع کیا تھا اور اثاثوں میں فرق آنے پر انہیں نیب راولپنڈی میں طلب کرنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔


ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف تحقیقات


سابق معاون خصوصی برائے صحت اور پاکستان تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف بھی بدعنوانی اور ماسکس کی اسمگلنگ سمیت مختلف الزامات کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔

مارچ 2020 میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ڈاکٹر ظفر مرزا اور ڈپٹی ڈائریکٹر ڈریپ غضنفر علی کے خلاف 2 کروڑ ماسکس کی اسمگلنگ کی شکایت ملنے پر تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔

سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا—فائل فوٹو: ڈان نیوز

بعد ازاں ڈاکٹر ظفر مرزا نے پریس کانفرنس کے دوران اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الزام لگانے والے کے خلاف قانونی کارروائی پر غور کر ہے ہیں۔

جس کے بعد رواں برس 13 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا بھی کہا تھا۔

اس کے بعد وزیراعظم نے سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویہ اختیار کرنے اور کورونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کا مقدمہ درست طریقے سے پیش نہ کرنے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش بھی کی تھی۔

بعدازاں جون میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال کی منظوری دے دی تھی۔

نیب نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے خلاف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران 2 کروڑ فیس ماسکس اور دیگر پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ (پی پی ای) کی اسمگلنگ اور بھارت سے جان بچانے والی ادویات کی درآمد کی آڑ میں وٹامنز، ادویات اور سالٹس کی درآمد میں ملوث ہونے کے الزام کے تحت کارروائی کی منظوری دی تھی۔

بعدازاں 29 جولائی کو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جسے کچھ ہی دیر بعد منظور کرلیا تھا، اس حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ معاونین خصوصی کے کردار سے متعلق منفی بات چیت اور حکومت پر تنقید کے باعث استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔


عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری


رواں برس 9 جون کو قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی۔

خیال رہے کہ ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عامر محمود کیانی جو وزیراعظم عمران خان کی پہلی کابینہ میں وزیر صحت نامزد تھے، انہیں ادویات کی قیمتوں میں نامناسب اضافے پر تنازع کے بعد اپریل 2019 میں عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔

سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی—فوٹو: فیس بک
سابق وزیر صحت عامر محمود کیانی—فوٹو: فیس بک

تاہم عامر محمود کیانی نے نیب کی جانب سے انکوائری کے آغاز کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا اور کہا کہ وہ اس مسئلے پر خاموش رہے تھے لیکن انکوائری انہیں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کرے گی اور انہوں نے ہر فورم پر تمام سوالوں کے جواب دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔

عامر محمود کیانی نے خود پر لگائے گئے الزامات سے متعلق کہا تھا کہ دوا ساز کمپنیوں کو سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی تھی اور وفاقی کابینہ کی جانب سے اضافے کی اجازت دی گئی تھی۔


زلفی بخاری کے خلاف مقدمات


پاکستان تحریک انصاف کے دو سالہ دور حکومت میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز سید ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی بخاری کو مختلف مقدمات کا سامنا رہا جن میں سے ایک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

سال 2018 میں پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد 18 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز مقرر کیا تو اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا اور دوہری شہریت کی بنیاد پر انہیں عہدے سے ہٹانے اور نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

بعدازاں 26 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی زلفی بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد کردی تھی، اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر انہوں نے وزیر کی حیثیت سے کام کیا یا اختیارات سے تجاوز کیا تو پھر اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔

رواں برس مارچ میں ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سول سوسائٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں تفتان بارڈر سے زائرین کی آمد کو روکنے میں حکومت کی نااہلی اور اس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی زلفی بخاری کے کردار کی تحقیقات کی استدعا کی گئی تھی۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 30 مارچ کو زلفی بخاری کے خلاف کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی تحقیقات سے متعلق درخواست مسترد کردی تھی جس کے بعد سول سوسائٹی نے 27 اپریل کو ایڈووکیٹ طارق اسد کے توسط سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا 30 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری—فائل فوٹو:ٹوئٹر
معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری—فائل فوٹو:ٹوئٹر

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں ایران سے واپس آنے والے شخص میں سامنے آٰیا تھا اور متاثرہ شخص میں دوران سفر وائرس کی علامات ظاہر ہوئی تھیں جس کے بعد تفتان بارڈر پر عالمی وبا کے درجنوں کیسز کی اطلاعات آئی تھیں۔

اس سلسلے میں وفاقی اور بلوچستان حکومتوں نے ایران سے واپس آنے والے زائرین کو سرحد پر ہی روکنے کے اقدامات کیے تھے جس پر ان کے خلاف تنقید بھی ہوئی تھی جبکہ وہاں سے سندھ آنے والے کئی زائرین میں کورونا وائرس کی تصدیق بھی ہوئی تھی۔

علاوہ ازیں رواں برس جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور چیئرمین پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) زلفی بخاری کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا اور پی ٹی ڈی سی کے 14 ملازمین کی جانب سے دائر درخواست میں منیجنگ ڈائریکٹر اننخاب عالم کی تعیناتی کو بھی چیلنج کیا تھا۔

درخواست میں نیشنل ٹورازم کووآرڈنیشن بورڈ (این ٹی سی بی) کے قیام پر بھی سوالات اٹھائے تھے اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ سیاحت کو صوبے کے حوالے کرنے کے بعد این ٹی سی بی کا قیام غیر آئینی ہے۔

بعدازاں جولائی میں پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے سابق ملازم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی ڈی سی کی جانب سے 36 موٹل بند کرتے ہوئے 450 ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ملازمین کو بطور قائم مقام چیئرمین برطرف کرنے سے متعلق زلفی بخاری کے اختیارات پر سوال اٹھایا تھا اور ان کی تعیناتی کے خلاف درخواست سمیت اس استدعا کو یکجا کردیا تھا۔

جس کے بعد 22 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی ڈی سی میں بھرتیوں کا عمل تاحکم ثانی روک دیا تھا اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے زلفی بخاری کی تعیناتی سے متعلق جواب جمع نہ کرانے پر سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

اس کے بعد 10 اگست کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے استفسار کیا تھا کہ وزیراعظم نے پی ٹی ڈی سی بورڈ کس قانون کے تحت تشکیل دیا؟فریقین سے دلائل طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی تھی۔


فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت چھپانے پر نااہلی کے مقدمات


پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا کے خلاف رواں برس جنوری میں مبینہ طور پر شہریت چھپانے کے خلاف نااہلی کی درخواست اس وقت دائر ہوئی تھی جب ایک انگریزی اخبار 'دی نیوز' نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ عام انتخابات 2018 میں حصہ لینے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں جمع کروائے گئے کاغذات نامزدگی کے وقت فیصل واڈا دوہری شہریت کے حامل تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے 11 جون 2018 کو اپنے کاغذات نامزدگی کو جمع کروائے، جو الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ہفتے بعد 18 جون کو منظور ہوئے تھے تاہم اس معاملے کے 4 روز بعد فیصل واڈا نے کراچی میں واقع امریکی قونصل خانے میں اپنی شہریت کی تنسیخ کے لیے درخواست دی تھی۔

وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا—فائل فوٹو؛ ڈان نیوز
وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واڈا—فائل فوٹو؛ ڈان نیوز

رواں برس جنوری میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصل واڈا کے خلاف دوہری شہریت چھپانے پر نااہلی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھی جس میں عدالت نے انہیں نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی تاہم اب تک فیصل واڈا کی جانب سے عدالت میں کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا۔

بعدازاں درخواست گزار میاں فیصل ایڈووکیٹ کی استدعا پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی وزیر فیصل واڈا کے خلاف توہین عدالت کی درخواست کو نااہلی کی مرکزی درخواست کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی جس کی سماعت آئندہ چند روز میں ہوگی۔

9 جولائی کو ہونے والی سماعت میں درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا تھا کہ عدالت نے 29 جنوری کو فیصل واڈا کو 2 ہفتوں میں جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا لیکن 5 مہینے ہو گئے اور وہ جواب داخل ہی نہیں کرانا چاہتے جو عدالتی حکم عدولی ہے۔

دوسری جانب رواں برس جنوری میں امن ترقی پارٹی کے چیئرمین فائق شاہ کی جانب سے اسی معاملے پر الیکشن کمیشن میں فیصل واڈا کی نااہلی سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فیصل واڈا نے کاغذات نامزدگی میں جعلی حلف نامہ جمع کروایا لہٰذا انہیں جعلی حلف نامہ جمع کروانے پر نااہل کیا جائے۔

اس حوالے سے 21 جولائی کو ہونے والی سماعت میں فیصل واڈا کی جانب سے کوئی بھی الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوا تھا جس پر کمیشن نے فیصل واڈا کو بھی نوٹس جاری کیا تھا اور تنبیہ کی تھی کہ اگر فیصل واڈا کی جانب سے آئندہ سماعت پر کوئی پیش نہ ہوا تو یکطرفہ کارروائی کریں گے۔

واضح رہے کہ قانون کے مطابق دوہری شہریت کے حامل فرد کو اس وقت تک الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں جب تک وہ دوسری شہریت ترک نہیں کردیتے۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی نے بھی جنوری ہی کے مہینے میں فیصل واڈا کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) میں شکایت درج کرائی تھی۔

عابد شیر علی نے الزام عائد کیا تھا کہ برطانیہ میں فیصل واڈا کی 11 جائیدادیں ہیں لیکن وہ کیسے خریدی گئیں یہ دکھانے کے لیے کوئی منی ٹریل موجود نہیں تاہم شکایت دائر کرنے کے دعوے کو برطانوی عہدیداروں نے مسترد کردیا تھا۔

علاوہ ازیں فیصل واڈا اپنے مختلف بیانات کی وجہ سے بھی شہ سرخیوں کا حصہ بنے رہتے ہیں، اسی طرح کے ایک اقدام میں رواں برس جنوری میں نجی چینل 'اے آر وائے نیوز' کے پروگرام 'آف دی ریکارڈ' میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واڈا نے تضحیک آمیز قدم اٹھاتے ہوئے 'فوجی بوٹ' کو میز پر رکھ دیا تھا اور اپنے اس عمل کا مکمل دفاع کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

وفاقی وزیر کے اس اقدام کو سیاسی جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ سوشل میڈیا پر بھی انہیں عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا تھا، بعدازاں قومی ادارے کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش کے خلاف فیصل واڈا کے خلاف مقدمے کے اندراج کی درخواست سیشن کورٹ میں دائر کی گئی تھی جسے سماعت کے لیے منظور بھی کیا گیا تھا۔


سبطین خان کے خلاف بدعنوانی کے الزام پر انکوائری


14 جون 2019 کو نیب لاہور نے وزیر جنگلات پنجاب اور پی ٹی آئی کے رہنما سبطین خان کو بد عنوانی کے الزام کی انکوائری کے دوران گرفتار کیا تھا۔

نیب لاہور کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایک کارروائی کے دوران سابق صوبائی وزیر برائے کان کنی و معدنیات ملزم محمد سبطین خان کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، سبطین خان پر چنیوٹ اور راجوہ میں اربوں روپے مالیت کے 500 میٹرک ٹن خام فولاد کا غیر قانونی ٹھیکہ من پسند کمپنی کو دینے کا الزام ہے۔

صوبائی وزیر سبطین خان—فائل فوٹو؛ ڈان نیوز
صوبائی وزیر سبطین خان—فائل فوٹو؛ ڈان نیوز

نیب لاہور نے کہا تھا کہ ملزم کی جانب سے جولائی 2007 میں 'میسرز ارتھ ریسورس پرائیویٹ لمیٹڈ' نامی کمپنی کو ٹھیکہ فراہم کرنے کے غیر قانونی احکامات جاری کیے گئے اور ملزم کی دیگر شریک ملزمان سے ملی بھگت سے کمپنی کو ٹھیکہ مروجہ قوانین سے انحراف کرتے ہوئے فراہم کیا گیا'۔

پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر کی گرفتاری کے دوسرے ہی روز انہیں لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے نیب کی جانب سے سبطین خان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کرتے ہوئے انہیں 10 روز کے لیے نیب کے حوالے کردیا تھا، اس کے بعد 25 جون کو عدالت نے ان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی تھی۔

بعد ازاں انہیں جیل بھیج دیا گیا جبکہ 18 ستمبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

رواں برس 7 جون کو سبطین خان نے ایک مرتبہ پھر پنجاب کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تاہم انہیں فوری طور پر کوئی قلمدان تفویض نہیں کیا گیا تھا لیکن انہیں ایک مرتبہ پھر صوبائی وزیر جنگلات بنانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔

جس کے بعد 14 اپریل 2020 کو لاہور کی احتساب عدالت نے سبطین خان سمیت کے خلاف ریفرنس دائر ہونے تک انہیں حاضری سے استثنیٰ دے دیا تھا۔


علیم خان کی گرفتاری، ضمانت اور کابینہ میں واپسی


گزشتہ برس 6 فروری کو پی ٹی آئی کے رہنما اور سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان آمدن سے زائد اثاثوں اور آف شور کمپنی سے متعلق تحقیقات کے سلسلے میں نیب لاہور کے دفتر میں پیش ہوئے تھے، جہاں تفتیش کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا اور گرفتاری کے اگلے روز 7 فروری 2019 کو عبدالعلیم خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیب میں پیشی کے موقع پر علیم خان سے مختلف سوالات کیے گئے تھے تاہم 2 گھنٹے سے زائد دورانیے تک جاری رہنے والی تحقیقات میں وہ نیب حکام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے تھے۔

خیال رہے کہ نیب عبدالعلیم خان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات، پاناما پیپرز میں آف شور کمپنی ظاہر ہونے اور ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق تحقیقات کررہا تھا اور وہ گرفتاری سے قبل بھی 3 مرتبہ نیب کے سامنے پیش ہوچکے تھے۔

نیب نے ملزم عبدالعلیم خان کی گرفتاری سے متعلق جاری اعلامیے میں وجوہات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر پارک ویو کوآپریٹنگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے سیکریٹری اور رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا اور اسی کی بدولت انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثے بنائے۔

قومی احتساب بیورو نے اس ضمن میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم عبدالعلیم خان نے ریئل اسٹیٹ کاروبار کا آغاز کرتے ہوئے اس میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی جبکہ ملزم نے لاہور اور اس کے مضافات میں اپنی کمپنی میسرز اے اینڈ اے پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام مبینہ طور پر 900 کینال زمین خریدی جبکہ 600 کینال کی مزید زمین کی خریداری کے لیے بیعانہ بھی ادا کیا گیا تاہم علیم خان اس زمین کی خریداری کے لیے موجود وسائل سے متعلق نیب کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے۔

پی ٹی آئی رہنما و صوبائی وزیر عبدالعلیم خان— فائل فوٹو: اے پی پی
پی ٹی آئی رہنما و صوبائی وزیر عبدالعلیم خان— فائل فوٹو: اے پی پی

نیب لاہور کے مطابق ملزم علیم خان نے مبینہ طور پر ملک میں موجود اپنے اثاثوں کے علاوہ 2005 اور 2006 کے دوران متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں متعدد آف شور کمپنیاں بھی قائم کیں جبکہ ملزم کے نام موجود اثاثوں سے کہی زیادہ اثاثے خریدے گئے جس کے بارے میں بھی تحقیقات جاری ہیں اور ملزم کی جانب سے مبینہ طور پر ریکارڈ میں ردوبدل کے پیش نظر ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔

ان کی گرفتاری کے دوسرے ہی روز پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے کہا تھا کہ نیب کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علیم خان کو حراست میں لینے پر ان کی جانب سے ازخود استعفیٰ پیش کرنا مثالی ہے۔

7 فروری کو ہی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے زیر حراست سینئر رہنما عبدالعلیم خان کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر 15 فروری تک ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

اس کے بعد علیم خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں متعدد مرتبہ توسیع کی گئی، بعد ازاں 15 مئی 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 10، 10 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

علاوہ ازیں 29 نومبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان اور کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے 2 سابق چیئرمینز کے خلاف پارک ویو سٹی ہاؤسنگ سٹی میں مبینہ تجاوزات سے متعلق کیس قومی احتساب بیورو کو ارسال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

بعدازاں 13 اپریل 2020 کو عبدالعلیم خان نے پنجاب کابینہ میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی۔

جس کے بعد 25 جولائی کو کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد عدالت میں ایک رپورٹ جمع کرائی گئی تھی جس میں سی ڈی اے نے تصدیق کی تھی کہ علیم خان نے پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کو کری روڈ سے منسلک کرنے کے لیے سرکاری اراضی پر تجاوزات قائم کی تھیں۔

اس سلسلے میں ہاؤسنگ ڈیولپر نے دعوٰی کیا تھا کہ انہوں نے اس زمین کے لیے ایک سڑک تعمیر کی تھی جو اس مقصد کے لیے مختص کی گئی تھی تاہم سی ڈی اے کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف اس سڑک کے لیے زمین مختص کی گئی تھی بلکہ سی ڈی اے کے چیئرمین کے طور پر کام کرنے والے 2 سینئر بیوروکریٹس کی طرف بھی انگلی اٹھائی گئی تھی۔


بی آر ٹی کیس


حکومتِ خیبرپختونخوا اور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس منصوبے کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تاریخیں دیتے رہے اور آخری تاریخ جون 2020 دی گئی تھی تاہم تب بھی اس منصوبے کو شروع نہیں کیا جاسکا تھا اور بالآخر وزیراعظم نے اس کا افتتاح رواں ماہ 13 اگست کو کیا۔

منصوبے کے آغاز کے وقت بی آر ٹی کی لاگت کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا تھا تاہم اس منصوبے کے ڈیزائن میں مسلسل تبدیلی اور نئی چیزیں شامل کرنے کی وجہ سے نہ صرف منصوبے کی تکمیل پہلی ڈیڈلائن پر نہ ہوسکی بلکہ اس کی لاگت میں بھی 17 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور اس پر 66 ارب 43 کروڑ روپے سے زائد اخراجات آئے۔

بی آر ٹی کی تکمیل میں تاخیر کے باعث 17 جولائی 2018 کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے معاملات کی مکمل تفتیش اور تحقیقات کرے تاہم صوبائی حکومت اور پی ڈی اے نے سپریم کورٹ میں سول پٹیشن دائر کرتے ہوئے اس عدالتی حکم کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی زیر سربراہی بینچ نے 4 ستمبر 2018 کو ہائی کورٹ کے حکم نامے کو معطل کردیا تھا اور نیب کی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکی تھیں۔

وزیر دفاع و سابق وزیر اعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک—فائل فوٹو:ڈان نیوز
وزیر دفاع و سابق وزیر اعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک—فائل فوٹو:ڈان نیوز

12 اپریل 2019 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر زور دیا تھا کہ وہ پشاور میں شروع کیے گئے اربوں روپے کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں پر سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

30 نومبر 2019 کو پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ہدایت کی تھی کہ بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بدعنوانیوں کی 45 دن کے اندر تحقیقات کی جائیں، عدالت عالیہ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

24 دسمبر 2019 کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ایف آئی اے کو پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کا حکم دینے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے منصوبے کی تحقیقات رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا حکم امتناع حاصل کرلیا تھا۔

جس کے بعد رواں برس مئی میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ جانب سے پشاور کے بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ارسال کرنے کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔


وزیراعظم کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس


فروری 2018 میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے عمران خان کی جانب سے خیبر پختونخوا حکومت کے 2 سرکاری ہیلی کاپٹرز ایم آئی 17 اور ایکیوریل کو 74 گھنٹوں تک غیر سرکاری دوروں کے لیے نہایت ارزاں نرخوں پر استعمال کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے نیب خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔

نیب کی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر پر 22 گھنٹے اور ایکیوریل ہیلی کاپٹر پر 52 گھنٹے پرواز کی، جس کا انہوں نے اوسطاً فی گھنٹہ 28 ہزار روپے ادا کیا۔

نیب رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگر عمران خان نجی کمپنیوں کے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے تو انہیں ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ خرچ 10 سے 12 لاکھ روپے جبکہ ایکیوریل ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ خرچ 5 سے 6 لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا۔

رپورٹ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے پرنسپل ایڈوائزر برائے ٹیکنیکل ٹریننگ اینڈ ایوی ایشن کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ہیلی کاپٹرز کے استعمال پر تقریباً 2 لاکھ روپے فی گھنٹہ خرچ آتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان— فائل فوٹو
وزیراعظم عمران خان— فائل فوٹو

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کو خیبر پختونخوا کی حکومت کو ایک کروڑ 11 لاکھ روپے ادا کرنے چاہیں تھے، تاہم سرکاری دستاویزات کے مطابق انہوں نے 21 لاکھ روپے ادا کیے، ادھر عمران خان نے اپنی پارٹی کے اجلاس میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹرز کا ذاتی استعمال نہیں کیا۔

7 اگست 2018 کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

9 جنوری 2019 کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف خیبر پختونخوا ہیلی کاپٹر کیس چلانا زیادتی ہے اور وہ اس طرح وزیر اعظم کی توہین کر رہا ہے۔

بعدازاں 11 جنوری 2019 کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیب وزیراعظم کے خلاف انتہائی فضول مقدمے کو ڈیڑھ برس سے گھسیٹ رہا جس کا تاحال کوئی نتجہ سامنے نہیں آسکا‘۔

جس کے بعد اس کیس میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی تھی اور رواں برس فروری میں رپورٹ سامنے آئی تھی کے وزیراعظم کے خلاف مذکورہ کیس بند کردیا گیا ہے اور نیب کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔


بابر اعوان کے خلاف ریفرنس


قومی احتساب بیورو نے وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کو 2018 میں نندی پور ریفرنس میں نامزد کیا تھا جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو اقتصادی رابطہ کونسل (ای سی سی) نے 30 کروڑ 29 لاکھ روپے مالیت کے نندی پور پاور پروجیکٹ کی منظوری دی تھی، بعد ازاں 28 جون 2008 کو اس منصوبے کے لیے نادرن پاور جنریشن کمپنی (این پی جی سی ایل) اور ڈونگ فانگ الیکٹرک کارپوریشن (ڈی ای سی) میں معاہدہ طے پایا تھا۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیا گیا نندی پور ریفرنس، قانونی طور پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں شروع کیے جانے والے نندی پور توانائی منصوبے پر نظرثانی میں غیر معمولی تاخیر سے متعلق ہے جس سے اس کی لاگت میں کئی ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔

مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان—فوٹو: فیس بک
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان—فوٹو: فیس بک

ریفرنس میں قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر قانون اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما بابر اعوان، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور وزارت قانون و انصاف اور پانی و بجلی کو اس کیس میں ملزم ٹھہرایا تھا۔

بعدازاں بابر اعوان نے ریفرنس سے بریت کے لیے درخواست دائر کردی تھی جس پر 11 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا جسے 25 فروری کو سنانے کا اعلان ہوا اور پھر اسے 8 مارچ تک ملتوی کردیا گیا تھا تاہم مارچ میں جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک اس پر فیصلہ سنانے والے تھے تو انہوں نے اپنی بریت کی درخواست واپس لے لی تھی۔

11 مارچ 2019 کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر بابر اعوان پر نندی پور کرپشن ریفرنس میں فردِ جرم عائد کردی تھی، جس کے بعد 19 اپریل کو ایک مرتبہ پھر انہوں نے بریت کی درخواست دائر کی جس پر سماعت کے لیے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنانے کا 2 مرتبہ اعلان کیا گیا لیکن پھر مؤخر کردیا گیا۔

واضح رہے کہ نیب کی جانب سے 5 ستمبر کو نندی پور پاور پروجیکٹ ریفرنس دائر کرنے کے بعد 18 ستمبر کو احتساب عدالت نے اس کی سماعت کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔

ریفرنس میں نیب نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ نندی پور پاور پروجیکٹ میں 2 سال ایک ماہ اور 15 دن کی تاخیر ہوئی، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 27 ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔

ریفرنس میں شامل دیگر ملزمان میں سابق سیکریٹری قانون جسٹس (ر) ریاض کیانی اور مسعود چشتی، پانی اور بجلی کے سابق سیکریٹری شاہد رفیق اور وزارت قانون، وزارت پانی و توانائی کے کچھ عہدیدار بھی شامل ہیں۔

25 جون 2019 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے قومی خزانے کو 27 ارب روپے کا نقصان پہنچانے پر دائر نندی پور ریفرنس سے حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان اور جسٹس (ر) ریاض کیانی کو بری کردیا تھا جبکہ عدالت نے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، شمائلہ محمود اور ڈاکٹر ریاض محمود کی بریت کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

5 جولائی 2019 کو نیب نے نندی پور پاور ریفرنس میں تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر بابر اعوان اور سابق لا سیکریٹری جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔


پی ٹی وی حملہ کیس


2014 میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئی تھیں۔

استغاثہ کے مطابق اس حملے کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوگئے تھے جبکہ اس اشتعال انگیزی کے دوران 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، استغاثہ نے اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لیے 65 تصاویر، ڈنڈے، کٹرز وغیرہ پیش کیے تھے۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام کے تحت انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس نے پی ٹی آئی کے چیئرمین اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان، صدر عارف علوی، وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر تعلیم شفقت محمود، راجا خرم نواز، جہانگیر خان ترین، علیم خان اور دیگر پر 2014 کے دھرنے کے دوران اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

17 ستمبر 2019 کو اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنما عبدالعلیم خان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کرتے ہوئے انہیں 2014 کے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ ہاؤس حملہ کیس کے سلسلے میں 30 ستمبر سے قبل ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

نومبر 2019 میں اے ٹی سی نے پی ٹی آئی کے 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمنٹ حملے کیس میں وزیراعظم عمران خان کی بریت سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا تاہم اس پر فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا تھا۔

بعدازاں رواں برس جون میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے وکیل بابر اعوان کو تبدیل کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی درخواست میں معاون وکیل نے استدعا کی تھی کہ بابر اعوان وزیراعظم عمران خان کے مشیر تعینات ہوچکے ہیں لہٰذا نیا وکیل مقرر کرنے کیلئے وقت دیا جائے۔


فارن فنڈنگ کیس


علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس نومبر 2014 سے زیر التوا ہے جو اس پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کیا تھا۔

کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غیر قانونی غیر ملکی فنڈز میں تقریباً 30 لاکھ ڈالر 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اور یہ رقم غیر قانونی طریقے 'ہنڈی' کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے پی ٹی آئی ملازمین کے اکاؤنٹس میں بھیجی گئی، ان کا یہ بھی الزام تھا کہ جو فنڈز بیرونِ ملک موجود اکاؤنٹس حاصل کرتے تھے، اسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں پوشیدہ رکھا گیا۔

بعد ازاں ایک سال سے زائد عرصے تک اس کیس کی سماعت تاخیر کا شکار رہی تھی کیونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال سے ای سی پی کو روکا جائے۔

جس کے بعد فروری 2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ اختیار پر جائزہ لینے کے لیے کیس کو دوبارہ ای سی پی کو بھیج دیا تھا، اسی سال 8 مئی کو ای سی پی کے فل بینچ نے اس کیس پر اپنے مکمل اختیار کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اس طرح کے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی کہ درخواست گزار کو پارٹی سے نکال دیا گیا اور وہ پی ٹی آئی اکاؤنٹس پر سوالات اٹھانے کا حق کھو بیٹھے۔

علاوہ ازیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی تھی جو اب تک فارن فنڈنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور 8 جولائی کو ہونے والی سماعت میں الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیٹی کو17 اگست تک حمتی رپورٹ جمع کروانے ہدایت کی تھی۔

جس کے بعد سے یہ کیسز تا حال التوا کا شکار ہے۔


چینی بحران تحقیقات میں جہانگیر ترین کو بڑے فائدے کا انکشاف


رواں برس ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین—فائل فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین—فائل فوٹو: ڈان نیوز

تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2018 کو اثاثہ جات سے متعلق غلط معلومات فراہم کرنے کی بنیاد پر آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا، پاناما پیپرز کیس میں اسی آرٹیکل کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دیا گیا تھا۔

تاہم نااہل قرار دیے جانے کے بعد بھی 2018 میں جہانگیر ترین کی جانب سے وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں اعلیٰ سطح کے سرکاری افسران کے اجلاس کی صدارت کا انکشاف ہوا تھا جبکہ 2019 میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سابق رکن قومی اسمبلی جہانگیر ترین نے بھی شرکت کی تھی۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شریک ہو کر زرعی شعبے میں اصلاحات سے متعلق بریفنگ دی۔

اس ضمن میں لاہور ہائی کورٹ میں جہانگیر ترین کے سرکاری اجلاسوں میں شرکت کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں انہیں ایگریکلچر ٹاسک فورس کا چیئرمین بنانے کی رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں لیکن اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی تھی تاہم چینی بحران کی رپورٹ سامنے آنے کے 2 روز بعد پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'جہانگیر ترین کو چینی اور آٹے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی روشنی میں ایگریکلچر ٹاسک فورس کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا ہے'۔

جس کے جواب میں وضاحت کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا تھا کہ 'خبریں آرہی ہیں کہ مجھے ایگریکلچرل ٹاسک فورس کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے'، انہوں نے کہا تھا کہ 'میں کسی ٹاسک فورس کا چیئرمین کبھی نہیں رہا، کیا کوئی مجھے چیئرمین بنانے کا نوٹی فکیشن دکھا سکتا ہے'۔

بعدازاں جون میں جہانگیر ترین لندن چلے گئے تھے جس پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے تنقید کی گئی تھی، علاوہ ازیں عیدالاضحیٰ کے بعد ان کے خلاف چینی اسکینڈل میں نامزد دیگر ملزمان کے خلاف طلبی کے نوٹسز جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔

دیگر مقدمات اور درخواستیں

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور وزرا کے خلاف جاری مقدمات اور انکوائریز کے علاوہ بھی کچھ مقدمات اور درخواستیں دائر ہوتی رہیں جن میں سے کچھ سماعت کے لیے مقرر کی گئیں تو کچھ مسترد کی جاچکی ہیں جبکہ کچھ کیسز التوا کا شکار ہیں یا ان کے حوالے سے مزید کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

حال ہی میں 11 اگست کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے 8 معاونین خصوصی اور ایک مشیر کے تقرر کو دوہری شہریت رکھنے کے باعث غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے اور مطلوبہ عہدوں پر تقرر کے نوٹی فکیشن واپس لینے کا حکم دینے سے متعلق درخواست دائر کی گئی تھی۔

اس سے قبل 30 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوہری شہریت کے حامل وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کے تقرر کو چیلنج کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی تھی اور ریمارکس دیے تھے کہ وزیر اعظم کو زیادہ سے زیادہ معاونین کے تقرر کا حق حاصل ہے کیونکہ انہیں حکومتی امور چلانے ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ میں مذکورہ درخواست دائر کی گئی تھی۔

اگست ہی کے مہینے میں وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل، وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات کو ملک امین اسلم سمیت دیگر کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے اور سیکریٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی ناہید درانی اور وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے تمام اراکین کو بھی توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 21 مئی کو وائلڈ لائف مینجمنٹ نامی تنظیم کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے مرغزار چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو آئندہ 60 روز میں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے پیشِ نظر شیروں کو خصوصی پنجروں میں 26 اور 27 جولائی کی رات کو لاہور منتقل کیا جارہا تھا تاہم 29 جولائی کو اسلام آباد سے لاہور کے چڑیا گھر میں منتقل کی جانے والی شیرنی کی دورانِ سفر موت ہوگئی تھی اور بعدازاں شیر بھی ہلاک ہوگیا تھا۔

علاوہ ازیں مالم جبہ اراضی کیس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کو مالم جبہ میں چیئرلفٹ اور ہوٹل قائم کرنے کے منصوبے کے لیے 275 ایکڑ اراضی کی لیز دینے میں مبینہ دھوکہ دہی پر تحقیقات کا سامنا ہے، اس حوالے سے وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا نیب سے مالم جبہ اراضی کیس میں کلین چٹ ملنے کا دعویٰ کیا تھا جسے قومی احتساب بیورو نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ اکتوبر 2018 میں اسلام آباد میں سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا، اسی حوالے سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اعظم سواتی کا فون نہ اٹھانے پر آئی جی اسلام آباد کا مبینہ طور پر تبادلہ کیا گیا، جس پر سپریم کورٹ نے 29 اکتوبر کو نوٹس لیتے ہوئے آئی جی کے تبادلے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔

اس وقت کے چیف جسٹس نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور معاملے کی باقاعدہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا، 5 دسمبر کی ہی سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ٹرائل ہوسکتا ہے اور سپریم کورٹ 62 ون ایف پر شہادتیں ریکارڈ کرنے کی مجاز ہے۔

بعد ازاں 6 دسمبر 2018 کو وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اعظم سواتی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے اعظم سواتی کے خلاف الزامات، اثاثوں اور ٹیکس چھپانے سے متعلق معاملے کی تحقیقات پولیس اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سپرد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ ابھی ختم نہیں کر رہے۔ ۔ اگست 2018 میں نیب نے پی ٹی آئی کے رہنما منظور وٹو کے خلاف مبینہ کریشن کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا اس حوالے سے نیب کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ میاں منظور احمد وٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور اقتدار میں بطور وفاقی وزیر خردبرد کی تھی۔

حکومت سے متعلق عدالتی ریمارکس

’بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے ہیں اور بھر کے چلے جاتے ہیں‘


10 اگست کو لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے مشیروں کے تقرر کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کی تھی اور وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا تھا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی تھی۔

درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے تھے کہ یہاں ان کے اثاثے 25 ہزار روپے ہیں اور بیرون ملک 25 ہزار ڈالرز ہوتے ہیں، بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے ہیں اور بریف کیس بھر کے چلے جاتے ہیں۔


'لگتا ہے معاون خصوصی سب کچھ چلا رہا ہے اور پیٹرولیم بحران کا ذمے دار بھی ہے'


رواں برس جولائی میں ملک میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد پیٹرولیم بحران پیدا ہوگیا تھا جس کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل پاکستان اور چیئرپرسن اوگرا عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس قاسم خان نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی تھی اور کہا تھا کہ وفاقی کابینہ کے مطابق ملک میں پیٹرول کی قلت مصنوعی تھی، حکومت بتائے اگر یہ قلت مصنوعی تھی تو کس کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ معاون خصوصی سب کچھ چلا رہا ہے اور اس بحران کا ذمہ دار بھی ہے۔


’ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جبکہ وزرا اور مشیروں کی فوج در فوج آپ کے پاس ہے'


ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے اس حوالے سے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھا، جس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کر رہی ہے، اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں۔

چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جبکہ وزرا اور مشیروں کی فوج در فوج آپ کے پاس ہے، جسٹس گلزار نے کہا تھا کہ مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے۔


’تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا‘


رواں برس 6 اپریل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں 'پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو' کی باتیں کررہی ہیں اور وفاق کے پاس کچھ ہے ہی نہیں تو وہ کچھ کر ہی نہیں رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا، تمام صنعتیں اور کاروبار بند پڑے ہیں، عدالت عظمیٰ حکم دے گی تو سب تعمیل کریں گے۔


’بڑے عہدوں پر تقرر اہم فریضہ، دوستی پر معاملات نہیں چلیں گے‘


18 ستمبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان نے زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی مقرر کیا تھا، تاہم اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔

بعدازاں نومبر 2018 میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے زلفی بخاری کی تمام معلومات، تقرر کا عمل اور اہلیت کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی اور سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے کہ ملک کے اہم عہدوں پر تقرر کرنا اہم قومی فریضہ ہے لیکن دوستی پر یہ معاملات نہیں چلیں گے بلکہ قومی مفاد پر چلیں گے۔