ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی کرسی کے لیے میوزیکل چیئر کا گیم کھیلا جا رہا ہے اور ہم سب کو تناؤ، بے بسی اور ناامیدی نے گھیرا ہوا ہے، آئیے ایک ایسے مسرت بھرے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں جب مشکلات اور مسائل کم از کم آج جیسے تو نہ تھے-

آج سے ٹھیک 17 سال پہلے یعنی اکیس مئی، 1997 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب کھیل کے میدان میں پاکستان کی پرفارمنس نے ان ڈراموں کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا جو آج کل ہماری کرکٹ کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گئے ہیں- اس روز کے ہیرو، سعید انور تھے جنہوں نے 194 رنز کی اننگ کھیل کر اس وقت ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے کا ریکارڈ اپنے نام کیا (اس ریکارڈ کو سچن ٹنڈولکر نے توڑا اور بعد میں ان ہی کے ہم وطن وریندر سہواگ نے 219 رنزبنا کر بہتر کیا)۔

مجھے اب بھی اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستان اس پیپسی آزادی کپ کے ابتدائی دو میچ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے خلاف ہار چکا تھا اور ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے کے لیے اسے یہ میچ لازمی طور پر جیتنا تھا- یہ اس لیے بھی اہم تھا کہ میچ ہندوستان کے خلاف اسی کی سرزمین پر کھیلا جانا تھا۔

یہ ڈے اینڈ نائٹ میچ میں نے ٹی وی پر پورا دیکھا تھا جس میں سعید انور نے سر ویوین رچرڈز کا 1984 میں اولڈ ٹریفورڈ میں انگلینڈ کے خلاف بنایا گیا 189 رنز کا ریکارڈ توڑا-

ان کی یہ سنچری ون ڈے انٹرنیشنل میں ہندوستان کے خلاف ہندوستان کی سرزمین پر کسی بھی پاکستانی کی پہلی سنچری بھی تھی-

میرے ذہن آج بھی وہ فرسٹیشن اور کوفت تازہ ہے جب 145 گیندوں پر پانچ چھکوں اور بائیس چوکوں کی مدد سے 194 رنز بنانے کے بعد، ٹنڈولکر کی لیگ اسٹمپ پر گرنے والی گیند کو انہوں نے سوئپ کرتے ہوئے ٹاپ ایج کر دیا اور گنگولی نے پیچھے بھاگ کر گرتے ہوئے کیچ لے کر انہیں پویلین واپسی پر مجبور کر دیا-

صرف چھ رنز کی کمی سے وہ ون ڈے انٹرنیشنل کی پہلی ڈبل سنچری بنانے والے کھلاڑی نہ بن سکے لیکن وہ کھلاڑی جس نے انہیں آؤٹ کیا شاید وہ خود یہ نہ جانتا تھا کہ ایک دہائی یہ کارنامہ وہ ہی انجام دے گا۔

سعید کے آؤٹ ہونے پر اسٹیڈیم میں موجود تماشائیوں کی خوشی دیدنی تھی تاہم جب انہوں نے پویلین کی طرف چلنا شروع کیا تو وہاں، ایم اے چدم برم اسٹیڈیم میں کھچا کھچ بھرے 45,000 تماشائیوں نے کھڑے ہو کر بھرپور تالیوں کے ساتھ تاریخ کی اس لازوال اننگ کی بھرپور داد دی-

سعید کی اس شاندار اننگز کی بدولت پاکستان نہ صرف میچ جیتا بلکہ آگے چل کر فائنل کے لیے بھی کوالیفائی کیا لیکن دونوں فائنلز میں سری لنکا نے میدان مار کر فاتح کا تاج سر پر سجایا۔

بائیں ہاتھ کے بلے باز نے شاہد آفریدی کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا تھا جو اس سے ایک سال پہلے ون ڈے کرکٹ کی اس وقت کی تیز ترین سینچری بنا کر انٹرنیشنل سطح پر اپنی دھاک بٹھا چکے تھے- شاہد جلد ہی مخصوص انداز میں آؤٹ ہو کر پویلین لوٹ گئے-

ان کے بعد آنے والے رمیز راجہ نے سعید کے ساتھ مل کر اسکور کو تیزی سے آگے بڑھانا شروع کیا اور مجموعی اسکور 100 کے قریب لے گئے- اس موقع پر رمیز بھی آؤٹ ہو گئے لیکن سعید نے ان کے بعد آنے والے اعجاز احمد کے ساتھ تیزی سے رنز بڑھائے اور دونوں کی شراکت بھی سنچری سے زیادہ رنز کی رہی-

سعید نے اننگ کے آغاز ہی سے جارحانہ انداز اپنایا اور گراؤنڈ کی چاروں اطراف دلکش اور ٹائمنگ سے بھرپور اسٹروکس کھیلے- سعید کے سامنے انڈین باؤلنگ کا حال یہ تھا کہ سچن ٹنڈولکر کو اپنے کوٹے کے پورے دس اوور مکمل کرنے پڑے-

یہ میچ مدراس(موجودہ چنئی) میں کھیلا جا رہا تھا جہاں صرف تین ہی موسم ہوتے ہیں، گرم، مزید گرم اور گرم ترین لہٰذااس اننگز کے دوران سعید کے جسم سے پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور ان کے جسم میں فلوئڈز کی بھی تیزی سے کمی ہو گئی تھی- انہیں اپنے لئے شاہد آفریدی کو بطور رنر بلوانا پڑا تاہم اس شدید گرمی اور جسم میں پٹھوں کے کھنچاؤ کے باوجود، اس اننگز میں سعید نے اپنے تمام تر اسٹروکس کا شاندار مظاہرہ پیش کیا

مڈوکٹ یا اسکوائر لیگ کے اوپر سے کھیلے جانے والے اپنے مخصوص اسٹروک کے علاوہ، اس اننگز میں انہوں نے تماشائیوں کو اپنے ڈرائیوز، کٹس، پلز اور سوئپ شاٹس کے بھی بھرپور جلوے دکھائے

جہاں فاسٹ بولروں کی پٹائی ہوئی وہیں اسپنرز کو بھی انہوں نے نہیں بخشا- اگر آپ کو یاد ہو تو یونس خان کی آمد سے پہلے، پاکستان کی جانب سے انیل کمبلے کو سب سے بہتر سعید ہی کھیلا کرتے تھے- اس روز، انہوں نے حقیقی معنوں میں انڈین باؤلنگ کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے تھے- کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آؤٹ ہوئے تھے اور اس میں بولر یا اس مخصوص گیند کا کوئی کمال نہیں تھا-

ٹنڈولکر نے میچ کے بعد اس اننگز کے بارے میں کہا تھا کہ انہوں نے اب تک اس سے بہتر اننگ نہیں دیکھی-

سعید انور کی اس لازوال اننگز کا مزہ اٹھاتے ہوئے ذرا یادوں کے دریچے کھول کر سعید انور کے بارے میں اپنی یادداشت تازہ کرتے ہیں-

سعید انور کی انٹرنیشنل کرکٹ میں آمد سب سے پہلے اسی کی دہائی کے آخر میں آسٹریلیا میں کھیلی گئی ورلڈ کرکٹ سیریز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوئی-

ون ڈے کرکٹ میں پہلے پندرہ اوروں میں تیس گز کے دائرے میں کھڑے فیلڈروں کے اوپر سے اسٹروکس کھیلنے کے آغاز کو عام طور پر 92 کے ورلڈ کپ کے دوران نیوزی لینڈ کے مارک گریٹ بیچ یا پھر 96 کے ورلڈ کپ میں سری لنکا کے سنتھ جے سوریا اور رومیش کالویتھرنا سے منسوب کیا جاتا ہے- تاہم، جن لوگوں نے اس ورلڈ کرکٹ سیریز کے دوران سعید انور کو دیکھا تھا وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ سعید انور نے سب سے پہلے اسی ورلڈ کرکٹ سیریز کے میچوں کے دوران ابتدائی اورز میں فیلڈروں کے سر کے اوپر سے اسٹروکس کھیلنے کا آغاز کیا تھا-

انہوں نے یہ طریقہ کار اپنے کپتان عمران خان کے کہنے پر اختیار کیا جو ان کی بیٹنگ کی صلاحیتوں کے معترف تھے-

فیلڈروں کے سروں کے اوپر سے اسٹروکس کھیلنے کی ان کی تکنیک نے ایک مخالف کپتان ایلن بارڈر کو اتنا زچ اور پریشان کر دیا تھا کہ وہ یہاں تک کہہ گئے کہ "نیا لڑکا سعید جو کچھ کر رہا ہے وہ بہرحال کرکٹ نہیں"- یہ بات اپنے سامعین کو مشہور اردو کرکٹ کمنٹیٹر منیر حسین نے ان میچوں کی کمنٹری کے دوران کئی بار بتائی تھی-

پانچ ستمبر، 1968 کو پیدا ہونے والے سعید انور نے اپنا ٹیسٹ ڈیبو بھی ویسٹ انڈیز کے خلاف 23 نومبر، 1990 کو اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد میں کیا- تاہم ان کا پہلا ٹیسٹ ایک بھیانک خواب ثابت ہوا اور وہ دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے اور ڈیبو ٹیسٹ میں پئیر حاصل کرنے والے کھلاڑی بن گئے-

97 وہ سال تھا جب ان کی بیٹنگ اپنے عروج پر تھی- اس سال انہوں نے ہندوستان کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنلز کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کا ریکارڈ قائم کرنے کے علاوہ، انگلینڈ کے خلاف اوول ٹیسٹ میں بھی 176 رنز کی ایسی دلکش اور خوبصورت اننگز کھیلی کہ وزڈن نے اسے پورے انگلش سمر کی سب سے شاندار اننگز قرار دیا- اسی سال کرکٹ کے معتبر ترین میگزین وزڈن نے انہیں سال کے بہترین کرکٹرز میں بھی شامل کیا تھا-

آج بھی پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں سب سے زیادہ سینچریاں (20) بنانے کا ریکارڈ سعید انور کے پاس ہے، جبکہ ون ڈے میں رنز کے اعتبار سے وہ 8,824 رنز کے ساتھ پاکستان میں انضمام الحق اور محمد یوسف کے بعد تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں-

ٹیسٹ میں ان کا سب سے زیادہ اسکور 188 ہے جو انہوں نے مشہور زمانہ ایڈن گارڈنز، کولکتا (سابقہ کلکتہ) میں انڈیا ہی کے خلاف بنائے- اس اننگز کے دوران انہوں نے بیٹ کیری کرنے کا بھی اعزاز بھی حاصل کیا-

سعید کی کلائیوں سے کھیلے گئے اور بھرپور ٹائمنگ والے اسٹروکس اب پاکستانی کرکٹ کے قصے کہانیوں کا حصہ ہیں تاہم، جب بھی سعید انور کا ذکر آتا ہے تو شائقین کے ذہنوں میں نہ تو ان کی داڑھی آتی ہے (جو انہوں نے اپنے کیرئر کے خاتمے کے قریب اپنی بیٹی کی المیہ موت کے بعد رکھ لی تھی) اور نہ ہی شاید کوئی دوسری اننگز بلکہ سب کے ذہنوں میں انڈیا کے خلاف 194 رنز کی یادگار اور لازوال اننگز ہی آتی ہے اور اس سے ملنے والی خوشی آنکھوں کی چمک سے دیکھی جا سکتی ہے-

آئیں دعا کریں کہ پی سی بی کی چیئرمین شپ کے لے چل رہے اس کھیل کا جلد خاتمہ ہو اور ہم کھیل کے میدان سے ایسی خوشیاں دوبارہ حاصل کر سکیں-


لکھاری: شعیب بن جمیل

تبصرے (3) بند ہیں

Bilal May 22, 2014 06:23pm
Bohat acha article likha hay aap nay. Bohat detail main likha hay saeed anwer jasay legend kay liye aur ap nay is match ki yaad bhi taza kar dee hay zahan main lakeen aap ik ghalti kar gay hain iss article main. Saeed anwar ka catch Sourav Ganguly nay nahi liya tha balkay Robin Singh nay liya tha iss match main 194 par.
Mohsin Ali May 23, 2014 07:27am
@Bilal: brother, ghalti per aap ho,catch ganguly ne hi liya tha.scorcard dekh lo.
j May 23, 2014 03:19pm
zabardast