'فائیو جی' سروسز شروع کرنے کے حکومتی منصوبے پر ٹیلی کام کمپنیوں کو تحفظات

10 فروری 2022
نیلامی کے حوالے سے نہ صرف ٹیلی کام کمپنیوں بلکہ وزارتوں کے درمیان بھی اختلاف رائے موجود ہے — فائل فوٹو
نیلامی کے حوالے سے نہ صرف ٹیلی کام کمپنیوں بلکہ وزارتوں کے درمیان بھی اختلاف رائے موجود ہے — فائل فوٹو

حکومت جہاں ایک طرف 'فائیو جی' سروسز فراہم کرنے کے لیے کوششیں تیز کر رہی ہے وہیں ٹیلی کام کمپنیاں اس دوڑ میں شامل ہونے کے لیے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں 'فائیو جی' سروسز فراہم کرنے کے حوالے سے نیلامی کے لیے مشاورتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

اس اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی سربراہی وزیر خزانہ شوکت ترین کریں گے جو کہ 13 ارکان پر مشتمل ہوگی، جس میں وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن امین الحق، وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز اور وزیر صنعت و پیداوار مخدم خسرو بختیار بھی شامل ہیں۔

میڈیا کو جاری کیے گئے نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی کے دیگر ارکان میں مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری، وزارت آئی ٹی، قانون اور خزانہ کے سیکریٹریز، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین، فریکوئینسی ایلوکیشن بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور اہم اداروں کے حکام بھی شامل ہیں۔

نیلامی کے طریقہ کار وضع کرنے کے لیے پی ٹی اے، کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرے گی۔

تاہم نیلامی کے حوالے سے نہ صرف ٹیلی کام کمپنیوں بلکہ وزارتوں کے درمیان بھی اختلاف رائے موجود ہے۔

یہ بھی دیکھیں: 'دسمبر 2022 تک پاکستان میں فائیو جی لانچ کردیا جائے گا'

وزارت قانون کے ذرائع کے مطابق وزارت آئی ٹی اور ٹیلی کام نے 'فائیو جی' کے لیے اضافی اسپیکٹرم کی کم قیمت پر نیلامی کی حمایت کی ہے، تاہم وزارت خزانہ نے نیلامی کے دوران ٹیلی کام کمپنیوں کے مابین سخت مسابقت کی حمایت کی ہے تاکہ زیادہ قیمت حاصل کی جاسکے۔

فائیو جی (ففتھ جنریشن) وائرلیس نیٹ ورکس کے لیے ایک نیا تکنیکی معیار ہے جس کی رفتار بہت تیز ہے اور نیٹ ورک سے منسلک ہونے پر دیر بھی نہیں لگتی جبکہ یہ بغیر کسی مسئلے کے متعدد آلات کو انٹرنیٹ سے منسلک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

فائیو جی نیٹ ورک زیادہ صارفین، متعدد سینسرز اور بھاری ٹریفک کو بہتر طور پر سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ہمیں اسے استعمال کرنے سے پہلے وائرلیس اور موبائل فون تیار کرنے والی کمپنیوں کو اپ گریڈ ہونا ہوگا جبکہ نئے نیٹ ورک کے لیے فونز کو نئی چپس اور ریڈیو اینٹینوں کی ضرورت ہوگی۔

وزارت قانون کے ایک سینئر افسر کے مطابق تمام رسمی کارروائیاں مکمل ہونے کے بعد ٹیلی کام کمپنیاں بولی لگانے کے عمل سے دور رہتی ہیں جس کا مشاہدہ پچھلی سپیکٹرم نیلامی میں ہوا تھا۔

تاہم وزیر آئی ٹی امین الحق نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پچھلے اسپیکٹرم نیلامی کے تجربے سے ظاہر ہے کہ ٹیلی کام کمپنیوں سے مسلسل مشاورت کی ضرورت تھی۔

امین الحق نے کہا کہ تمام آپشن کھلے ہیں اور 'فائیو جی' لائسنس کے ٹرم آف ریفرنس (ٹی او آر) میں لچک رکھیں گے تاکہ فائیو جی لانچ کرنے سے ملکی معیشت اور لوگوں کو فائدہ ہوسکے اور نئی کمپنیاں بھی ٹیکنالوجی کے اس میدان میں داخل ہوسکیں۔

دوسری جانب ٹیلی کام کمپنیوں نے نئی ٹیکنالوجی کے متعارف کرانے میں بلند لاگت پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ لائسنس کی خریداری میں بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: فائیو جی ٹیکنالوجی فضائی آپریشن کیلئے نقصان دہ ہے، امریکی ایئرلائنز کا انتباہ

جیز پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسر عامر ابراہیم نے کہا کہ 'فائیو جی' کے لیے سرمایہ کاری کی حکمت عملی اور اسپیکٹرم پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ خطیر ابتدائی سرمایہ کاری کے ساتھ کیپیٹل اخراجات کی بھی ضرورت ہے، یہ کییپٹل اخراجات کمپنی معین اثاثوں جیسا کہ زمین، عمارات، گاڑیاں، پلانٹس، آلات اور ٹیکنالوجی وغیرہ کو برقرار رکھنے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

عامر ابراہیم کے مطابق 'فائیو جی' کو لانچ کرنا فضول ہوسکتا ہے، اگر تیز ترین انٹرنیٹ کی مانگ ہے تو وہ 'فور جی' کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرکے فراہم کی جاسکتی ہے۔

اسی طرح دوسری ٹیلی کام کمپنی کے سینئر ایگزیکٹو نے کہا کہ پاکستان نے ٹیلی کام صارفین پر نئے ٹیکسز کا نفاذ کیا ہے جس سے ان کا انٹرنیٹ اور فون پر خرچ کم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک دہائی قبل 8 ڈالر فی یونٹ کی اوسط آمدنی ہوتی تھی جو کہ کم ہو کر ڈیڑھ ڈالر رہ گئی ہے جبکہ شرح تبادلہ سے بھی کمپنیوں کی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں